قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الدَّعَوَاتِ ( بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَصَلِّ عَلَيْهِمْ})

تمہید کتاب عربی

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَمَنْ خَصَّ أَخَاهُ بِالدُّعَاءِ دُونَ نَفْسِهِ وَقَالَ أَبُو مُوسَى: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ»

6331. حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ الأَكْوَعِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، قَالَ رَجُلٌ مِنَ القَوْمِ: أَيَا عَامِرُ لَوْ أَسْمَعْتَنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ، فَنَزَلَ يَحْدُو بِهِمْ يُذَكِّرُ: تَاللَّهِ لَوْلاَ اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا وَذَكَرَ شِعْرًا غَيْرَ هَذَا، وَلَكِنِّي لَمْ أَحْفَظْهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ هَذَا السَّائِقُ» قَالُوا: عَامِرُ بْنُ الأَكْوَعِ، قَالَ: «يَرْحَمُهُ اللَّهُ» وَقَالَ رَجُلٌ مِنَ القَوْمِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْلاَ مَتَّعْتَنَا بِهِ، فَلَمَّا صَافَّ القَوْمَ قَاتَلُوهُمْ، فَأُصِيبَ عَامِرٌ بِقَائِمَةِ سَيْفِ نَفْسِهِ فَمَاتَ، فَلَمَّا أَمْسَوْا أَوْقَدُوا نَارًا كَثِيرَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا هَذِهِ النَّارُ، عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ» قَالُوا: عَلَى حُمُرٍ إِنْسِيَّةٍ، فَقَالَ: «أَهْرِيقُوا مَا فِيهَا وَكَسِّرُوهَا» قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلاَ نُهَرِيقُ مَا فِيهَا وَنَغْسِلُهَا؟ قَالَ: «أَوْ ذَاكَ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور جس نے اپنے آپ کو چھوڑکر اپنے بھائی کے لئے دعا کی اس کی فضیلت کا بیان ۔ اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا اے اللہ ! عبیدہ ابوعامر کی مغفرت کر۔ اے اللہ ! حضرت عبد اللہ بن قیس کے گناہ معاف کر۔تشریح : ”اللہم اغفرلعبید“ ایک حدیث کا ٹکڑا ہے جو غزوئہ اوطاس میں مذکور ہوچکی ہے حضرت امام بخاری نے یہ باب لاکر اس شخص کا رد کیا ہے جس نے اس کو مکروہ جانا ہے۔ یعنی آدمی دوسرے کے لئے دعا کرے، اپنے تئیں چھوڑدے۔

6331.

حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ خیبر کی طرف گئے۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: اے عامر! اگر تم ہمیں اپنے اشعار سناؤ تو بہت اچھا ہوگا چنانچہ وہ حدی پڑھنے لگے۔ اس کا آغاز کیا: اللہ کی قسم! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اس کے بعد دوسرے اشعار بھی پڑھے لیکن وہ مجھے یاد نہیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اونٹوں کو چلانے والا یہ شخص کون ہے؟“ صحابہ کرام‬ ؓ ن‬ے کہا: یہ عامر بن اکوع ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ اس پر رحم کرے۔“ صحابہ کرام میں سے ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! کاش ہمیں ان سے مزید نفع اٹھانے دیتے پھر جب صف بندی ہوئی تو مسلمانوں نے کافروں سے جنگ کی۔ (چونکہ حضرت عامر ؓ کی تلوار چھوٹی تھی اس لیے وہ اپنی تلوار ہی سے زخمی ہوگئے اور ان کی موت واقع ہوگئی۔ شام ہوئی تو لوگوں نے جگہ جگہ آگ جلائی۔ رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”یہ آگ کیسی ہے؟ اسے کیا چیز پکانے کے لیے جلایا گیا ہے؟“ صحابہ کرام نے عرض کی: گھریلو گدھوں کا گوشت پکانے کے لیے اسے جلایا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو کچھ ان ہنڈیوں میں ہے اسے پھینک دو، پھر انہیں بھی توڑ دو۔“ ایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا جو کچھ ان میں ہے اے پھینک دیں اور ہنڈیاں دھولیں؟ آپ نے فرمایا: ”اچھا یہی کرلو۔“