تشریح:
(1) عرب لوگ اونٹوں پر سفر کرتے وقت خوش الحانی سے چھوٹے چھوٹے شعر پڑھتے تھے جن سے مست ہو کر اونٹ تیزی سے چلتے تھے۔ حضرت عامر بن اکوع بھی بہت اچھے حدی خواں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اشعار سن کر فرمایا: ''اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے!'' حضرات صحابۂ کرام میں یہ معروف تھا کہ غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کے لیے رحم کی دعا کرتے تو وہ زندہ نہ رہتا بلکہ شہید ہو جاتا، اس لیے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! کاش! ہمیں ان کی زندگی سے مزید فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا۔ (2) اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف عامر رضی اللہ عنہ کے لیے دعائیہ کلمات استعمال کیے، دعا میں اپنی ذات کا ذکر نہیں فرمایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مذکورہ حدیث لانے سے یہی مقصود ہے۔ واللہ المستعان