تشریح:
(1) مؤذن کی دعوت پر لبیك کہتے ہوئے ممکن ہے کہ نماز مکمل یا جزوی طور پر رہ جائے، اس لیے اس بات کی وضاحت ضروری تھی کہ اپنی کوتاہی کو کن الفاظ سے بیان کیا جائے ؟ ایسے حالات میں نماز کے لیے آنے کا کیا انداز ہو؟ نماز رہ جانے کی صورت میں اسے کس طرح پڑھا جائے؟ امام بخاری ؒ نے اس باب میں ہماری رہنمائی فرمائی۔ اس سلسلے میں پہلا ادب یہ ہے کہ اپنی کوتاہی کو بیان کرتے ہوئے اگر کہہ دیا جائے کہ ہماری نماز رہ گئی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ اسلوب اختیار کرنے پر کوئی قدغن نہیں لگائی، چنانچہ اس حدیث میں خود رسول اللہ ﷺ نے’’رہ جانے‘‘ کی نسبت نماز کی طرف فرمائی ہے، بلکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ ایک مرتبہ کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نیند کی وجہ سے نماز بروقت نہ پڑھ سکے تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ ہم سے نماز رہ گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ کے استعمال پر کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ انھیں برقرار رکھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کرنے میں کوئی کراہت نہیں۔ (فتح الباري:153/2)
(2) واضح رہے کہ امام ابن سیرین ؒ کی ناپسندیدگی کا تعلق تہذیب الفاظ سے ہے، اظہار مدعا سے نہیں جیسا کہ شریعت نے عتمہ کا لفظ نماز عشاء پر اور یثرب کا لفظ مدینہ طیبہ پر ناپسند فرمایا ہے۔