Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
14. Chapter: How long should the interval between the Adhan and the Iqama be? (And something concerning) the person who wants for the Iqama
باب: اس بیان میں کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہیے؟
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: How long should the interval between the Adhan and the Iqama be? (And something concerning) the person who wants for the Iqama)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
635.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب مؤذن اذان کہتا تھا تو نبی ﷺ کے صحابہ کرام میں سے کچھ حضرات کھڑے ہوتے اورستونوں کے پاس جانے میں جلدی کرتے تھے یہاں تک کہ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے تو بھی اسی طرح مغرب سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ رہے ہوتے تھے، نیز اذان اور تکبیر کے درمیان کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا۔ عثمان بن جبلہ اور ابوداود حضرت شعبہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان بہت کم فاصلہ ہوتا تھا۔
تشریح:
(1) اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کم از کم اتنا فاصلہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ دورکعت پڑھی جاسکیں، چنانچہ اس حدیث میں وضاحت ہےکہ رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مغرب کی اذان کے وقت مسجد کے ستونوں کا رخ کرتے تاکہ انھیں سترہ بنا کر جماعت سے پہلے پہلے دو نفل پڑھ سکیں، پھر جب رسول اللہ ﷺ گھر سے مسجد میں تشریف لاتے تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ابھی نماز میں مشغول ہوتے تھے، چنانچہ ایک اور حدیث میں ہے، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ہم غروب آفتاب کے بعد دورکعت ادا کرتے جبکہ رسول اللہ ﷺ ہمیں دیکھ رہے ہوتے۔ آپ نہ تو ہمیں اس کا حکم دیتے اور نہ منع ہی فرماتے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1938(836)) رسول اللہ ﷺ سے اذان کے بعد اور جماعت سے پہلے دورکعت پڑھنے کا حکم بھی بعض روایات میں ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’مغرب سے پہلے نماز پڑھو، مغرب سے پہلے نماز پڑھو۔‘‘ پھر تیسری مرتبہ فرمایا: ’’یہ حکم صرف اس شخص کےلیے ہےجو پڑھنا چاہے۔‘‘ آپ نے یہ بات اس اندیشے کے پیش نظر فرمائی کہ کہیں لوگ اسے سنت لازمہ نہ بنالیں۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:1183) خود رسول اللہ ﷺ سے بھی ان دورکعتوں کا پڑھنا ثابت ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مغرب سے پہلے دو رکعت ادا فرمائیں۔ (صحیح ابن حبان (الإحسان)، حدیث: 1586) خود رسول اللہ ﷺ نے مغرب سے پہلے دو رکعت ادا فرمائیں۔ ان الفاظ کو شیخ البانی نے شاذ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:(الضعیفة، رقم الحدیث:5662) الغرض امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کچھ فاصلہ ضرور ہونا چاہیے۔ وہ فاصلہ کم از کم اتنا ضرور ہو کہ دورکعت پڑھی جاسکیں۔ جب مغرب کی نماز سے پہلے دورکعت پڑھنے کا وقت دیا جاتا تھا، حالانکہ نماز مغرب کا وقت محدود ہے تو دوسری نماز وں کےلیے تو بالاولیٰ اتنا فاصلہ ثابت ہوگا۔ (2) حدیث کے آخر میں (لَمْ يَكُنْ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ شَيْءٌ) اس کا مفہوم یہ نہیں کہ اذان اور اقامت کے درمیان کچھ فاصلہ نہ ہوتا تھا بلکہ شئي پر تنوین، تعظیم کےلیے ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں کے درمیان کچھ زیادہ فاصلہ نہ ہوتا تھا۔ اس کی وضاحت امام بخاری ؒ نے عثمان بن جبلہ اور ابو داود کی روایت سے کی ہے کہ ان دونوں کے درمیان بہت کم فاصلہ ہوتا تھا، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ روایت میں نفئ مطلق مجازی طور پر مبالغے کے لیے ہے اور دوسری روایت میں جو قلت وقت کو ثابت کیا گیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ (فتح الباري:142/2) واضح رہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان قلت وقت کا فاصلہ صرف نماز مغرب سے متعلق ہے کیونکہ اس کاوقت کچھ محدود ہوتا ہے، دوسری نمازوں کےلیے اس سے زیادہ وقت بھی رکھا جاسکتا ہے، لیکن مغرب سے پہلے بھی اتنا وقت ضرور ہونا چاہیے کہ کم از کم دو رکعت پڑھی جاسکیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
620
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
625
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
625
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
625
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس عنوان کے آخری الفاظ صحیح بخاری کے بیشتر نسخوں میں نہیں ہیں۔چونکہ یہ عنوان آگے آرہا ہے،لہٰذا اسے یہاں حذف ہونا چاہیے۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب مؤذن اذان کہتا تھا تو نبی ﷺ کے صحابہ کرام میں سے کچھ حضرات کھڑے ہوتے اورستونوں کے پاس جانے میں جلدی کرتے تھے یہاں تک کہ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے تو بھی اسی طرح مغرب سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ رہے ہوتے تھے، نیز اذان اور تکبیر کے درمیان کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا۔ عثمان بن جبلہ اور ابوداود حضرت شعبہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان بہت کم فاصلہ ہوتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کم از کم اتنا فاصلہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ دورکعت پڑھی جاسکیں، چنانچہ اس حدیث میں وضاحت ہےکہ رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مغرب کی اذان کے وقت مسجد کے ستونوں کا رخ کرتے تاکہ انھیں سترہ بنا کر جماعت سے پہلے پہلے دو نفل پڑھ سکیں، پھر جب رسول اللہ ﷺ گھر سے مسجد میں تشریف لاتے تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ابھی نماز میں مشغول ہوتے تھے، چنانچہ ایک اور حدیث میں ہے، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ہم غروب آفتاب کے بعد دورکعت ادا کرتے جبکہ رسول اللہ ﷺ ہمیں دیکھ رہے ہوتے۔ آپ نہ تو ہمیں اس کا حکم دیتے اور نہ منع ہی فرماتے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1938(836)) رسول اللہ ﷺ سے اذان کے بعد اور جماعت سے پہلے دورکعت پڑھنے کا حکم بھی بعض روایات میں ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’مغرب سے پہلے نماز پڑھو، مغرب سے پہلے نماز پڑھو۔‘‘ پھر تیسری مرتبہ فرمایا: ’’یہ حکم صرف اس شخص کےلیے ہےجو پڑھنا چاہے۔‘‘ آپ نے یہ بات اس اندیشے کے پیش نظر فرمائی کہ کہیں لوگ اسے سنت لازمہ نہ بنالیں۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:1183) خود رسول اللہ ﷺ سے بھی ان دورکعتوں کا پڑھنا ثابت ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مغرب سے پہلے دو رکعت ادا فرمائیں۔ (صحیح ابن حبان (الإحسان)، حدیث: 1586) خود رسول اللہ ﷺ نے مغرب سے پہلے دو رکعت ادا فرمائیں۔ ان الفاظ کو شیخ البانی نے شاذ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:(الضعیفة، رقم الحدیث:5662) الغرض امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ اذان اور تکبیر کے درمیان کچھ فاصلہ ضرور ہونا چاہیے۔ وہ فاصلہ کم از کم اتنا ضرور ہو کہ دورکعت پڑھی جاسکیں۔ جب مغرب کی نماز سے پہلے دورکعت پڑھنے کا وقت دیا جاتا تھا، حالانکہ نماز مغرب کا وقت محدود ہے تو دوسری نماز وں کےلیے تو بالاولیٰ اتنا فاصلہ ثابت ہوگا۔ (2) حدیث کے آخر میں (لَمْ يَكُنْ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ شَيْءٌ) اس کا مفہوم یہ نہیں کہ اذان اور اقامت کے درمیان کچھ فاصلہ نہ ہوتا تھا بلکہ شئي پر تنوین، تعظیم کےلیے ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں کے درمیان کچھ زیادہ فاصلہ نہ ہوتا تھا۔ اس کی وضاحت امام بخاری ؒ نے عثمان بن جبلہ اور ابو داود کی روایت سے کی ہے کہ ان دونوں کے درمیان بہت کم فاصلہ ہوتا تھا، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ روایت میں نفئ مطلق مجازی طور پر مبالغے کے لیے ہے اور دوسری روایت میں جو قلت وقت کو ثابت کیا گیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ (فتح الباري:142/2) واضح رہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان قلت وقت کا فاصلہ صرف نماز مغرب سے متعلق ہے کیونکہ اس کاوقت کچھ محدود ہوتا ہے، دوسری نمازوں کےلیے اس سے زیادہ وقت بھی رکھا جاسکتا ہے، لیکن مغرب سے پہلے بھی اتنا وقت ضرور ہونا چاہیے کہ کم از کم دو رکعت پڑھی جاسکیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر غندر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عمرو بن عامر انصاری سے سنا، وہ حضرت انس بن مالک ؓ سے بیان کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ (عہد رسالت میں) جب مؤذن اذان دیتا تو نبی کریم ﷺ کے صحابہ ستونوں کی طرف لپکتے۔ جب نبی کریم ﷺ اپنے حجرہ سے باہر تشریف لاتے تو لوگ اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے ملتے۔ یہ جماعت مغرب سے پہلے کی دو رکعتیں تھیں۔ اور (مغرب میں) اذان اور تکبیر میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا۔ اور عثمان بن جبلہ اور ابوداود طیالسی نے شعبہ سے اس (حدیث میں یوں نقل کیا ہے کہ) اذان اور تکبیر میں بہت تھوڑا سا فاصلہ ہوتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
مغرب کی جماعت سے قبل دورکعت سنت پڑھنے کا صحابہ کرام میں عام معمول تھا۔ حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد باب یہ ہے کہ اذان اورتکبیر کے درمیان کم از کم اتنا فاصلہ توہونا ہی چاہیے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھی جاسکیں۔ حتیٰ کہ مغرب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ بعض فضلائے دیوبند نے لکھا ہے کہ بعد میں ان رکعتوں کے پڑھنے سے روک دیا گیا تھا۔ مگر یہ وضاحت نہیں کی کہ روکنے والے کون صاحب تھے۔ شاید آنحضرت ﷺ سے ممانعت کے لیے کوئی حدیث ان کے علم میں ہو۔ مگرہماری نظر سے وہ حدیث نہیں گزری۔ یہ لکھنے کے باوجود ان ہی حضرات نے ان رکعتوں کو مباح بھی قرار دیا ہے۔ ( دیکھو تفہیم البخاری، پ3، ص:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): "When the Mu'adhdhin pronounced the Adhan, some of the companions of the Prophet (ﷺ) would proceed to the pillars of the mosque (for the prayer) till the Prophet (ﷺ) arrived and in this way they used to pray two Rakat before the Maghrib prayer. There used to be a little time between the Adhan and the Iqama." Shu'ba said, "There used to be a very short interval between the two (Adhan and Iqama)."