تشریح:
(1) پوری حدیث اس طرح ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! میں تجھ سے عہد لیتا ہوں جس کا تو خلاف نہیں کرے گا، میں ایک انسان ہوں تو جس مومن کو میں اذیت دوں، برا بھلا کہوں یا لعنت کر دوں یا ماروں تو وہ اس کے لیے رحمت و پاکیزگی اور ایسی قربت کا ذریعہ بنا دے جو قیامت کے دن اسے قریب کر دے۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة، حدیث: 6619 (2601)) ایک دوسری حدیث میں اس کا پس منظر بھی بیان ہوا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی آئے۔ معلوم نہیں انہوں نے آپ سے کیا باتیں کیں کہ آپ کو ناراض کر دیا، آپ نے ان پر لعنت کی اور ان دونوں کو برا بھلا کہا۔ جب وہ باہر چلے گئے تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! ان دونوں کو کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے عرض کی: آپ نے ان پر لعنت کی ہے اور انہیں برا بھلا کہا ہے۔ آپ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’عائشہ! تجھے معلوم نہیں ہے کہ میں نے اپنے رب سے کیا شرط کی ہوئی ہے؟ میں نے (اللہ سے) عرض کی ہے: اے میرے اللہ! میں صرف بشر ہوں، لہذا میں تو جس مسلمان پر لعنت کروں یا اس کو برا بھلا کہوں تو اس (لعنت اور برا بھلا کہنے) کو اس کے لیے گناہوں سے پاکیزگی اور حصولِ اجر کا ذریعہ بنا دے۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة، حدیث: 6614 (2600))
(2) یہ اس صورت میں ہے جب وہ آدمی اس لعنت کا حق دار نہ ہو جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے اپنی امت میں سے جس کسی پر بددعا کی اور وہ اس کا مستحق نہ تھا تو اے اللہ! اس قسم کی بددعا کو قیامت کے دن اس کے لیے پاکیزگی، گناہوں سے صفائی اور ایسی قربت بنا دے جس کے ذریعے سے تو اسے اپنے قریب فرما لے۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة، حدیث: 6627 (2603))