تشریح:
(1) اس مقام پر آپ نے ایک مسئلے کی وضاحت فرمائی ہے کہ نماز باجماعت میں شرکت کرنے کے لیے بھاگ دوڑ مناسب نہیں بلکہ سکون ووقار کے ساتھ چل کر شریک جماعت ہونا چاہیے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جب نماز کے لیے اقامت ہوجائے تو اس کی طرف بھاگ کر نہیں آنا چاہیے۔ (حدیث: 908) پھر یہ احادیث بظاہر اس آیت کریمہ کے خلاف معلوم ہوتی ہیں جس میں جمعے کےلیے دوڑکر آنے کا حکم ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ﴾ ’’اے ایمان والو!جب جمعے کے دن نماز کےلیے اذان دی جائے تو ذکر الہٰی کی طرف دوڑ آؤ۔‘‘ (الجمعة: 62:9) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ آیت کریمہ میں دوڑنے سے مراد اس کام کے لیے شدت اہتمام سے آگے بڑھنا ہے اور حدیث میں جس دوڑنے سے منع کیا گیا ہے، اس سے مراد وہ دوڑ دھوپ ہے جو وقارو سکون اور آداب نماز کے منافی ہو۔
(2) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں علی بن مبارک کی متابعت کا حوالہ دیا ہے۔ مذکورہ حدیث میں حضرت یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کرنے والے حضرت شیبان ہیں، اس کے علاوہ علی بن مبارک بھی ان سے بیان کرتے ہیں، چنانچہ امام بخاری ؒ نے خود اس متابعت کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:909) اس کے علاوہ معاویہ بن سلام نے بھی اس روایت کو اپنے شیخ یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا ہے جیسا کہ سنن ابی داود میں ہے۔ (فتح الباري:159/2)