تشریح:
(1) صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو اذان کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:’’ اس نے ابو القاسم ﷺ کی نافرمانی کی ہے ۔‘‘ امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث سے پتا چلا کہ یہ وعید اس شخص کے لیے ہے جو بلاوجہ اذان کے بعد مسجد سے نکلتا ہے، البتہ کسی ضرورت کے پیش نظر اقامت کے بعد بھی مسجد سے نکلنا جائز ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے، مثلا: کسی کو جنابت کا غسل یاد آگیا یا وہ بےہوگیا یا اسے نکسیر پھوٹ نکلی یا وہ کسی دوسری مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دیتا ہے تو ایسے حالات میں اذان یا تکبیر کے بعد مسجد سے نکلنا جائز ہے۔ اذان کے بعد ضرورت کے بغیر مسجد سے نکلنا منافقت کی علامت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:اگر کوئی شخص اذان کے بعد بلاوجہ مسجد سے نکلتا ہے اور واپس بھی نہیں آتا تو وہ منافق ہے، ہاں! اگر کوئی ضرورت ہوتو الگ بات ہے۔ (المعجم الأوسط للطبراني:502/4) اس سے معلوم ہوا کہ اذان یا اقامت کے بعد بلاوجہ مسجد سے نہیں نکلنا چاہیے (فتح الباري:159/2) (2) سنن دار قطنی کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’میں بحالت جنابت تھا اور غسل کرنا بھول گیا تھا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ عبادات کے سلسلے میں حضرات انبیاء علیہم السلام سہوونسیان کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ امت کو ان سے متعلقہ مسائل سے آگاہی ہو، نیز اس حدیث سے درج ذیل مسائل کا پتا چلتا ہے:٭مائے مستعمل پاک ہے۔٭اقامت اور نماز کے درمیان اگر فاصلہ آجائے تو دوبارہ تکبیر کہنے کی ضرورت نہیں۔٭ دینی معاملات میں شرم وحیا کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔٭ اقامت اور نماز کے درمیان گفتگو جائز ہے۔٭ غسل جنابت کو کسی وجہ سے مؤخر کیا جاسکتا ہے۔ (فتح الباري:160/2)