تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اقسام تحمل حدیث بیان فرمانے کے لیے مختلف عنوان قائم کیے ہیں۔ یہ باب مناولہ اورمکاتبہ کے اثبات کے لیے ہے۔ اس حدیث سے مناولہ بایں طور پر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکتوب گرامی دیا اور فرمایا کہ یہ خط بحرین کے گورنرکوپہنچادیں اور اسے بتائیں کہ اسے ایران کے بادشاہ کسریٰ تک پہنچادے، حالانکہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ خود مکتوب پڑھا اور نہ ہی سنا۔ یہ اگرچہ اصطلاحی مناولہ نہیں، تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اثبات کے لیے معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوتی ہے۔ اور مکاتبہ کا انطباق تو بالکل ظاہر ہے۔ (فتح الباري: 205/1) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مصنف نے عنوان میں دوامور کا ذکر کیا تھا: مناولہ اورمکاتبہ، پھر پیش کردہ حدیث سے عنوان کا دوسرا جز ثابت کیا جس سے جز اول کا ثبوت بطریق اولیٰ نکل آیا ہے۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد شاہان عالم کے نام دعوتی خطوط روانہ فرمائے، حدیث میں مذکورہ خط بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس خط کو آپ نے حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کیا تاکہ وہ بحرین کے گورنر کے ذریعے سے شاہ فارس کسریٰ کو پہنچادیں۔ یہ زمانہ خسرو پرویز کا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا حرف بحرف پوری ہوئی، چنانچہ خسرو پرویز کو اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کردیا اور وہ خود خطرناک زہر کھانے کے بعد ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعد سلطنت کے معاملات اس کی بیٹی کے سپرد کیے گئے، وہ اس وسیع سلطنت کاانتظام نہ کرسکی، بالآخر طوائف الملوکی شروع ہوگئی اور سلطنت کانام ونشان تک مٹ گیا۔ (شرح الکرماني: 22/2)اس حدیث سے اہل علم کی علمی باتوں کوتحریر کر کے دیگر ممالک ارسال کرنے کا ثبوت ملتا ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر مسلم حکومت سے اعلان جنگ سے پہلے اسے دین اسلام کی دعوت دی جائے، اگر وہ بے ادبی اورگستاخی کریں تو ان کے خلاف بددعا کی جائے۔ خبرواحد کی حجیت کا ثبوت بھی اس حدیث سے ملتا ہے۔ ( شرح الکرماني: 22/2)