تشریح:
(1) جب امام کسی ضرورت کے پیش نظر قبل از نماز چلا جائے اور کسی قرینے سے معلوم ہوجائے کہ لوٹ کر واپس آئے گا تو مقتدی حضرات کو اس کا انتظار کرنا چاہیے، بصورت دیگر کوئی دوسرا امام نماز پڑھا سکتا ہے۔
(2) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تکبیر تحریمہ سے پہلے ہی غسل کے لیے گھر تشریف لےگئے تھے، لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو نماز شروع کرنے کے بعد یاد آیا کہ میں نے غسل نہیں کیا جیسا کہ ابو داود اور ابن حبان میں حضرت ابوبکرہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر کے لیے تکبیر تحریمہ کہی، پھر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اشارہ فرمایا کہ تم اپنی اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ یہ دونوں روایات متعارض ہیں۔ ان میں تطبیق کئی طرح سے ممکن ہے:ایک تو اس طرح کہ آپ نے تکبیر تحریمہ نہیں کہی تھی، بلکہ اس کا ارادہ فرمایا تھا۔ عربی زبان میں ارادۂ فعل پرفعل کا اطلاق ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں حضرت ابوبکرہ ؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ کی احادیث کا ایک ہی مفہوم ہوگا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ دو مختلف واقعات ہوں جیسا کہ قاضی عیاض ؒ اور علامہ قرطبی ؒ نے کہا ہے اور امام نووی ؒ نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ امام ابن حبان ؒ نے اپنی عادت کے مطابق کہا ہے کہ اگر ابوبکرہ والی روایت صحیح ہے تو اسے دو واقعات پر محمول کیا جائے گا بصورت دیگر صحیح بخاری کے واقعے کو ترجیح ہوگی۔ (فتح الباري:160/2)