تشریح:
(1) ایک روایت میں اس کی کچھ تفصیل ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے آپ کو ''السام عليك'' کہا۔ آپ نے اس کا جواب ''وعليكم'' کہہ کر دیا، اس طرح دوسرا اور تیسرا آیا، ہر ایک نے یہی کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جواب دیا۔ میں نے غصے میں آ کر کہا: بندروں اور خنزیروں کی اولاد! تم پر ہلاکت، اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ فحش اور بدکلامی کو پسند نہیں کرتا۔ انہوں نے ایک بات کہی میں نے وہ ان پر واپس کر دی اور یہ حقیقت ہے کہ ہمیں ان کی بات سے کچھ نہیں ہو گا لیکن ہمارا جواب ان کے ساتھ قیامت تک کے لیے چمٹ جائے گا۔'' (مسند أحمد: 135/6)
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر اگر کوئی ظالم کسی پر بددعا کرتا ہے تو وہ قبول نہیں ہو گی۔ اس کی تائید ارشاد باری تعالیٰ سے بھی ہوتی ہے: ’’کافروں کی دعا و پکار تو رائیگاں ہی جاتی ہے۔ (الرعد: 13/14، و فتح الباري: 239/11)