تشریح:
(1) امام بخاری ؒ بعض اوقات ایک ایسا عنوان قائم کرتے ہیں جس کا بظاہر کوئی فائدہ معلوم نہیں ہوتا جیسا کہ اس عنوان کے متعلق کہا جاتا ہے لیکن جب غور کیا جاتا ہے تو اس کی اہمیت کا پتا چلتا ہے۔ قبل ازیں حضرت ابن سیرین ؒ کے متعلق امام بخاری ؒ نے بیان کیا تھا کہ وہ ان الفاظ کو ناپسند کرتے ہیں کہ’’ہماری نماز رہ گئی۔‘‘ اسی طرح امام ابراہیم نخی ؒ کہتے ہیں کہ’’ہم نے نماز نہیں پڑھی‘‘ کہنا مکروہ ہے کیونکہ یہ ایک قسم کی بے اعتنائی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید فرمائی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ بوقت ضرورت ایسے الفاظ ادا کرنے میں چند حرج نہیں۔ اگرچہ مذکورہ روایت کے مطابق حضرت عمر ؓ نے یہ الفاظ استعمال نہیں فرمائے، لیکن ان کا مقولہ مفہوم اور نتیجے کے اعتبار سے (ما صليت) ’’میں نے نماز نہیں پڑھی‘‘ ہی کے معنی دے رہا ہے۔ دراصل امام بخاری ؒ کا محل استدلال ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں جس میں وضاحت کے ساتھ حضرت عمر ؓ نے (ما صليت) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ (صحیح البخاري، صلاة الخوف، حدیث:945) مذکورہ روایت میں بھی رسول اللہ ﷺ نے (ما صليت) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ (2) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ امام بخارى ؒ اللہ اس سے تہذیب الفاظ کا سبق دینا چاہتے ہیں لیکن اگر استدلال رسول اللہ ﷺ کے ارشاد (والله ما صليتها) سے ہوتا تو زیادہ مناسب تھا۔ علامہ ابن بطال ؒ نے حضرت امام نخعی ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ نے اس قسم کے الفاظ اس شخص کے لیے مکروہ خیال کیے ہیں جو نماز کے انتظار میں ہو کیونکہ حدیث کے مطابق نماز کا انتظار کرنے والا نماز ہی میں ہوتا ہے، اس لیے اسے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں نے نماز نہیں پڑھی، کیونکہ اس سے ایک ایسی چیز کا انکار لازم آتا ہے جسے شریعت نے ثابت کیا ہے۔ (شرح ابن بطال:267/1) ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ ایسے الفاظ کا استعمال اس شخص کے لیے جائز قرر یتے ہوں جو بھول کر نماز چھوڑ بیٹھا ہو یا کسی ہنگامی اور جنگی حالات کی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکا ہو، وہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے نماز نہیں پڑھی۔ امام ابراہیم نخعی ؒ بھی علي الاطلاق اس کی کراہت کے قائل نہیں ہیں۔ والله أعلم.