ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:"جوشخص دوزخ سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو یقیناً وہ کامیاب ہوگیا۔"
"بِمُزَحْزِحِهِ" کے معنی ہیں:"ہٹانے والا۔"
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:"انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں کہ کھاپی لیں اور مزے اڑالیں۔"
حضرت علی ابن ابی طالبؓنے فرمایا:دنیا پیٹھ پھیرنے والی ہے اور آخرت سامنے آرہی ہے۔ان دونوں (دنیا وآخرت) میں سے ہر ایک کے طالب ہیں۔تم آخرت کے طلبگار بنو،دنیا کے چاہنے والے نہ بنو۔بلاشبہ آج عمل کا موقع ہے حساب نہیں اور کل حساب ہوگا عمل کا موقع نہیں ملے گا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ قطان نے خبر دی، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے منذر بن یعلیٰ نے، ان سے ربیع بن خثیم نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے چوکھٹا خط کھینچا۔ پھر اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا۔ اس کے بعد درمیان والے خط کے اس حصے میں جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا چھوٹے چھوٹے بہت سے خطوط کھینچے اور پھر فرمایا کہ یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو (بیچ کا) خط باہر نکلا ہوا ہے وہ اس کی امید ہے اور چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔ پس انسان جب ایک (مشکل) سے بچ کر نکلتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس چوکھٹے کی شکل یوں مرتب کی گئی ہے۔ اندر والی لکیر انسان ہے جس کو چاروں طرف سے مشکلات نے گھیر رکھا ہے اور گھیرنے والی لکیر اس کی موت ہے اور باہر نکلنے والی اس کی حرص وآرزو ہے جو موت آنے پر دھری رہ جاتی ہے۔ حیات چند روزہ کا یہی حال ہے۔