قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الرِّقَاقِ (بَابُ فِي الأَمَلِ وَطُولِهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ، وَأُدْخِلَ الجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ، وَمَا الحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الغُرُورِ} [آل عمران: 185] وَقَوْلِهِ: {ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا، وَيُلْهِهِمُ الأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ} [الحجر: 3] وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: «ارْتَحَلَتِ الدُّنْيَا مُدْبِرَةً، وَارْتَحَلَتِ الآخِرَةُ مُقْبِلَةً، وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بَنُونَ، فَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الآخِرَةِ، وَلاَ تَكُونُوا مِنْ أَبْنَاءِ الدُّنْيَا، فَإِنَّ اليَوْمَ عَمَلٌ وَلاَ حِسَابَ، وَغَدًا حِسَابٌ وَلاَ عَمَلٌ» {بِمُزَحْزِحِهِ} [البقرة: 96]: «بِمُبَاعِدِهِ»

6417. حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الفَضْلِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ مُنْذِرٍ، عَنْ رَبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَطَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ خَطًّا فِي الوَسَطِ خَارِجًا مِنْهُ، وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلَى هَذَا الَّذِي فِي الوَسَطِ مِنْ جَانِبِهِ الَّذِي فِي الوَسَطِ، وَقَالَ: هَذَا الإِنْسَانُ، وَهَذَا أَجَلُهُ مُحِيطٌ بِهِ - أَوْ: قَدْ أَحَاطَ بِهِ - وَهَذَا الَّذِي هُوَ خَارِجٌ أَمَلُهُ، وَهَذِهِ الخُطَطُ الصِّغَارُ الأَعْرَاضُ، فَإِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا نَهَشَهُ هَذَا، وَإِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا نَهَشَهُ هَذَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” پس جو شخص دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہوا اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے “ اور سورۃ حجر میں فرمایا اے نبی ! ان کافروں کو چھوڑ کہ وہ کھاتے رہیں اور مزے کر تے رہیں اور آرزو ان کو دھوکے میں غافل رکھتی رہے، پس وہ عنقریب جان لیں گے جب ان کو موت اچانک دبوچ لے گی۔ “ علیؓ نے کہا کہ دنیا پیٹھ پھیرنے والی ہے اور آخرت سامنے آرہی ہے ۔ انسانوں میں دنیا وآخرت دونوں کے چاہنے والے ہیں۔ پس تم آخرت کے چاہنے والے بنو، دنیا کے چاہنے والے نہ بنو، کیونکہ آج تو کام ہی کام ہے حساب نہیں ہے اور کل حساب ہی حساب ہوگا اور عمل کا وقت باقی نہیں رہے گا ۔ سورۃ بقرہ میں جو لفظ بمزحزحہ۔ بمعنیٰ مباعدہ ہے اس کے معنی ٰ ہٹانے والا۔تشریح:آیت باب میں لفظ امل سے آرزو و تمنا مراد ہے یعنی خواہشات نفسانی پوری ہونے کی امید رکھنا۔مثلا آدمی یہ خیال کرے کہ ابھی بہت عمر پڑی ہے ‘جلدی کیا ہے آخر عمر میں توبہ کر لیں گے ایسی ہی غلط آرزو کو امل کہتے ہیں بڑھاپے میں ایسی آرزو کی رسی بہت دراز ہوتی جاتی ہے مگر دفعتاً موت آکر دبوچ لیتی ہے الا من رحم اللہ آیت باب میں لفظ زحزح آیا تھا اس کی مناسبت سے بمزحزحہ کی تفسیر بیان کر دی ہے بعض نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے ۔

6417.

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مربع خط کھینچا۔ پھراس کے درمیان سے ایک اور خط کھینچا جو مربع خط سے باہرنکلا ہوا تھا۔ اس کے بعد آپ نے درمیانے اندرونی خط کے دائیں بائیں دونوں جانب چھوٹے چھوٹے مزید خط کھینچے پھر فرمایا: ’’یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت سے جو اسے گھیرے ہوئے ہے ۔ اور یہ خط جو باہر نکلا ہوا ہے وہ اس کی اُمید ہے۔ چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔ اگر انسان ایک مشکل سے بچ کر نکل جاتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور اگر دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے۔