تشریح:
(1) دنیا کی بہاریں اور اس کی رنگینی جس پر کھول دی جائے اسے چاہیے کہ اس کے برے انجام اور سنگین نتائج سے بچنے کی کوشش کرے۔ اسے دیکھ کر خود کو مطمئن نہ کرے اور نہ اس کے متعلق کسی دوسرے سے آگے بڑھنے کی تگ و دو ہی کرے۔
(2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فقر و تنگدستی کا درجہ مال داری اور تونگری سے زیادہ ہے کیونکہ دنیا کا فتنہ مال و دولت سے وابستہ ہے، بعض اوقات یہ فتنہ انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے جبکہ فقیر و تنگدست انسان ان تمام قسم کے شر سے محفوظ رہتا ہے۔ (فتح الباري: 295/11)
(3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ چٹائی پر سوئے ہوئے تھے۔ جب بیدار ہوئے تو نرم و نازک جسم پر چٹائی کے نشان پڑ چکے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ حکم دیں تو ہم کسی بستر کا انتظام کر دیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے دنیا اور اس کے سازوسامان سے کیا غرض ہے؟ میرا تعلق تو دنیا کے ساتھ اس مسافر جیسا ہے جو کچھ دیر سایہ لینے کے لیے درخت کے نیچے ٹھہرا پھر اسے چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف چل دیا۔‘‘ (مسند أحمد: 441/1)