تشریح:
1۔ نماز باجماعت کے متعلق مندرجہ ذیل متعدد اقوال ہیں: فرض عین، فرض کفایہ، سنت مؤکدہ، مستحب، صحت نماز کےلیے شرط۔ اگر ترک جماعت پر وعید کی احادیث کو دیکھا جائے تو اس کے متعلق فرض ہونے کا درجہ سمجھ میں آتا ہے اور اگر ان احادیث کو دیکھا جائے جن میں بظاہر معمولی عذر کی وجہ سے ترک جماعت کی گنجائش نکلتی ہے تو اس کے متعلق سنت ہونے کا گمان ہوتا ہے، مثلا: بارش، سخت، سردی، سخت گرمی، کھانے پینے یا انسانی ضرورت کی حاجت وغیرہ۔ البتہ امام بخاری ؒ نے نماز باجماعت کے متعلق فرض عین ہونے کا موقف اختیار کیا ہے، کیونکہ اگر باجماعت نماز پڑھنا سنت ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس کے تارک کو جلا دینے کی دھمکی نہ دیتے، لیکن آپ نے اس دھمکی کو عملی شکل اس لیے نہیں دی کہ ایسا کرنے سے ان لوگوں کونقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا جن پر نماز باجماعت فرض نہیں ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر ان کے گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے تو میں ضرور ان کے گھروں کو جلا دیتا۔‘‘ (مسند أحمد:367/2)
(2) امام بخاری ؒ کے موقف کی درج ذیل احادیث سے بھی تائید ہوتی ہے:٭حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک نابینے نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے گھر نماز ادا کرنے کی اجازت کی تو آپ نے پوچھا:’’کیا تم اذان سنتے ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا: ہاں۔آپ نے فرمایا:’’پھر اس کا جواب دو، یعنی مسجد میں حاضر ہوکرنماز باجماعت ادا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم ، المساجد، حدیث:1486(653))٭حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اذان سنے ،پھر نماز باجماعت ادا نہ کرے تو اس کی کوئی نماز نہیں الایہ کہ کوئی عذر حائل ہو‘‘ (سنن ابن ماجة، المساجد والجماعات، حدیث:793) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:نماز باجماعت سے صرف ایسا منافق ہی پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق واضح ہوتا تھا یا کوئی بے چارہ مریض ہوتا تھا حتیٰ کہ وہ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر چلتا اور باجماعت نماز میں شریک ہوتا۔ (مسند أحمد:382/1)٭حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی اذان کہے اور جو تم میں سے بڑا ہو،وہ امامت کرائے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:628)٭ حضرت ابو درداء سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’کسی بھی بستی یاد یہات میں تین آدمی ہوں اور وہ باجماعت نماز ادا نہ کریں تو شیطان ان پر حملہ کردیتا ہے،اس لیے جماعت کو لازم پکڑو کیونکہ بھیڑیا اس بکری کو اپنا لقمہ بنالیتا ہے جو ریوڑ سے دور رہتی ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:547) اس کے علاوہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾ ’’اور تم رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘ (البقرة 2:43) اور مذکورہ امر وجوب کے لیے ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے میدان جنگ میں بھی بحالت خوف نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (النساء 4: 102) جب ایسے حالات میں نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم ہے تو حالت امن میں تو بالاولی اسے واجب ہونا چاہیے۔ مذکورہ احادیث وآیات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا فرض عین ہے۔ والله أعلم.