تشریح:
(1) اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے مال و متاع سے کوئی دلچسپی نہ تھی، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ اس پر کوئی بستر وغیرہ بھی نہیں تھا اور اس چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر نمایاں تھے اور آپ نے چمڑے کے تکیے پر ٹیک لگا رکھی تھی۔ میں آپ کی اس حالت کو دیکھ کر رو پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے رونے کی وجہ پوچھی۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اہل فارس اور اہل روم کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر کشادگی دی ہے اور آپ تو اس کے رسول ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تم خوش نہیں کہ ان کے لیے دنیا میں ہوں اور ہمارے لیے آخرت میں۔‘‘ (صحیح البخاره، التفسیر، حدیث: 4913) ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کی امت پر کشادگی فرمائے کیونکہ اہل فارس اور اہل روم پر تو اس کی بہت سی نوازشات ہیں، حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: ’’اے ابن خطاب! کیا تم ابھی تک اسی مقام پر ہو؟ یہ کفار وہ لوگ ہیں کہ انہیں ان کی لذتیں اس دنیا کی زندگی میں جلد عطا کر دی گئی ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، المظالم، حدیث: 2468)
(2) امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُحد پہاڑ کے برابر سونا مل جائے تو اسے بھی اپنے پاس نہ رکھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیں، صرف اتنی دولت باقی رکھیں جس سے قرض کی ادائیگی ہو سکے۔ واللہ المستعان