تشریح:
(1) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کثرتِ مال سے تونگری نہیں آتی کیونکہ بے شمار لوگ جن کے پاس مال و دولت کی کثرت ہوتی ہے وہ صبر اور قناعت سے خالی ہوتے ہیں اور مال کو زیادہ کرنے کی فکر میں رہتے ہیں، خواہ اس کے لیے انہیں ناجائز ذرائع ہی کیوں نہ اختیار کرنے پڑیں، گویا حرص اور لالچ کی وجہ سے تنگدست اور حقیر ہیں۔ اگر انسان کا دل غنی ہے اور اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے پر صبر اور قناعت کرتا ہے اور کثرتِ مال کی خواہش نہیں کرتا تو حقیقت کے اعتبار سے ایسا انسان غنی ہے۔ اس بات کی مزید وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے، آپ نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اے ابوذر! کیا تو خیال کرتا ہے کہ مال کی کثرت تونگری ہے۔‘‘ میں نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تو سمجھتا ہے کہ مال کی قلت ناداری ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’تونگری تو دل کی مال داری ہے اور فقیری تو دل کی ناداری ہے۔‘‘ (الإحسان بترتیب صحیح ابن حبان: 396/2)
(2) قرآن کریم نے ایسے بے نیاز حضرات کی مال داری کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’ان کے سوال نہ کرنے کی وجہ سے ناواقف لوگ انہیں خوشحال سمجھتے ہیں۔ آپ ان کے چہروں سے ان کی کیفیت پہچان سکتے ہیں۔ وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔‘‘ (البقرة: 273)
(3) ﴿وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ ﴿٨﴾ کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس غنا سے مراد بھی دل کی تونگری ہے۔ (فتح الباري: 329/11)