صحیح بخاری
81. کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
3. باب: نبی کریم ﷺکایہ فرمان کہ دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرو جیسے تم مسافر ہو یا عار ضی طور پر کسی راستہ پر چلنے والے ہو
باب: نبی کریم ﷺکایہ فرمان کہ دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرو جیسے تم مسافر ہو یا عار ضی طور پر کسی راستہ پر چلنے والے ہو
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: "Be in this world as if you were a stranger.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6474.
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا شانہ پکڑ کر فرمایا: ’’دنیا میں اس طرح رہو گویا تم مسافر ہو یا راستے پر چلنے والے ہو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے : شام ہو جائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو۔ تندرستی کی حالت میں وہ عمل کرو جو بیماری کے دنوں میں کا م آئیں اور زندگی کوموت سے پہلے غنیمت خیال کرو۔
تشریح:
(1) انسان کی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور انجام آخرت سے بے فکر ہو کر نفسانی خواہشات اور دنیا کی فانی لذتوں ہی کو اپنا مقصد بنا لے اور ہمیشہ کے لیے کوشاں رہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا کے متعلق تعلیم یہ ہے کہ اس میں پردیسی یا راستہ چلتے مسافر کی طرح رہا جائے۔ کوئی مسافر بھی اپنی راہ گزر کو اپنا اصل وطن نہیں سمجھتا اور وہاں رہنے کے لیے کوئی لمبے چوڑے انتظامات نہیں کرتا۔ اسی طرح مومن کو چاہیے کہ وہ اس دنیا کو اپنا اصل وطن خیال نہ کرے اور ایسی فکر نہ کرے گویا یہاں اس نے ہمیشہ رہنا ہے بلکہ موت کے بعد والی زندگی کو اصل اور مستقل زندگی یقین کرتے ہوئے اس کی فکر اور تیاری میں اس طرح لگا رہے گویا وہ زندگی اس کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے جو مضمون حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت کے حوالے سے بیان کیا، وہ ایک مرفوع روایت میں بھی ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں کے آنے سے پہلے غنیمت خیال کرو: اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، خوشحالی کو ناداری سے پہلے، فراغت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت خیال کرو۔‘‘ (المستدرك للحاکم: 306/4) مطلب یہ ہے کہ انسان کے حالات ایک جیسے نہیں رہتے، لہذا اسے چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ اسے کچھ کام کرنے کا موقع عطا فرمائے تو اسے غنیمت خیال کرتے ہوئے اخروی کامیابی حاصل کرنے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہو اس وقت کرے، کیا خبر کہ آئندہ اسے موقع نہ مل سکے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6188
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6416
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6416
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6416
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا شانہ پکڑ کر فرمایا: ’’دنیا میں اس طرح رہو گویا تم مسافر ہو یا راستے پر چلنے والے ہو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے : شام ہو جائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح ہو جائے تو شام کا انتظار نہ کرو۔ تندرستی کی حالت میں وہ عمل کرو جو بیماری کے دنوں میں کا م آئیں اور زندگی کوموت سے پہلے غنیمت خیال کرو۔
حدیث حاشیہ:
(1) انسان کی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور انجام آخرت سے بے فکر ہو کر نفسانی خواہشات اور دنیا کی فانی لذتوں ہی کو اپنا مقصد بنا لے اور ہمیشہ کے لیے کوشاں رہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا کے متعلق تعلیم یہ ہے کہ اس میں پردیسی یا راستہ چلتے مسافر کی طرح رہا جائے۔ کوئی مسافر بھی اپنی راہ گزر کو اپنا اصل وطن نہیں سمجھتا اور وہاں رہنے کے لیے کوئی لمبے چوڑے انتظامات نہیں کرتا۔ اسی طرح مومن کو چاہیے کہ وہ اس دنیا کو اپنا اصل وطن خیال نہ کرے اور ایسی فکر نہ کرے گویا یہاں اس نے ہمیشہ رہنا ہے بلکہ موت کے بعد والی زندگی کو اصل اور مستقل زندگی یقین کرتے ہوئے اس کی فکر اور تیاری میں اس طرح لگا رہے گویا وہ زندگی اس کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے جو مضمون حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت کے حوالے سے بیان کیا، وہ ایک مرفوع روایت میں بھی ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں کے آنے سے پہلے غنیمت خیال کرو: اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، خوشحالی کو ناداری سے پہلے، فراغت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت خیال کرو۔‘‘ (المستدرك للحاکم: 306/4) مطلب یہ ہے کہ انسان کے حالات ایک جیسے نہیں رہتے، لہذا اسے چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ اسے کچھ کام کرنے کا موقع عطا فرمائے تو اسے غنیمت خیال کرتے ہوئے اخروی کامیابی حاصل کرنے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہو اس وقت کرے، کیا خبر کہ آئندہ اسے موقع نہ مل سکے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن عبد الرحمن ابو منذر طفاوی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے مجاہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا شانہ پکڑکر فرمایا: ”دنیا میں اس طرح ہو جا جیسے مسافر یا راستہ چلنے والا ہو۔“ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے شام ہو جائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اورصبح کے وقت شام کے منتظر نہ رہو۔ اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کوموت سے پہلے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mujahid (RA) : 'Abdullah bin 'Umar said, "Allah's Apostle (ﷺ) took hold of my shoulder and said, 'Be in this world as if you were a stranger or a traveler." The sub-narrator added: Ibn 'Umar (RA) used to say, "If you survive till the evening, do not expect to be alive in the morning, and if you survive till the morning, do not expect to be alive in the evening, and take from your health for your sickness, and (take) from your life for your death."