تشریح:
(1) عربوں میں یہ رواج تھا کہ لوگوں کو دشمن سے خبردار کرنے والا شخص اپنے کپڑے اتار کر برہنہ ہو جاتا اور کپڑوں کو اپنے سر پر گھماتا تھا، پھر اعلان کرتا کہ دشمن حملہ کرنے والا ہے۔
(2) حدیث کے معنی یہ ہیں کہ میں تمہیں واضح طور پر خبردار کرنے والا ہوں، جہنم سے بچنے کی فکر کرو۔ اس حدیث کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر نکلے اور تین دفعہ آواز دے کر فرمایا: ’’میری اور تمہاری مثال اس قوم کی طرح ہے جنہیں دشمن سے خطرہ تھا کہ وہ اچانک حملہ کر دے گا۔ انہوں نے نگرانی کے لیے ایک آدمی کو بھیجا۔ اس نے ایک دن دیکھا کہ دشمن ان پر حملے کی تیاری کر رہا ہے تو وہ فوراً وہاں سے بھاگا تاکہ اپنی قوم کو اس کی تیاری سے آگاہ کرے، ایسا نہ ہو کہ دشمن حملہ کر کے انہیں تباہ کر دے، چنانچہ وہ اپنے کپڑے اتار کر وہاں سے بھاگا اور اعلان کرنے لگا: لوگو! اپنی فکر کر لو، اپنے بچنے کی تدبیر کر لو۔‘‘ (مسند أحمد: 248/5)
(3) بہرحال جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ سن کر گناہوں سے بچیں گے وہ جہنم سے بچ جائیں گے جبکہ گناہوں سے نہ بچنے والے جہنم کا ایندھن بن جائیں گے۔ واللہ المستعان