تشریح:
(1) دور حاضر میں ایسی آزادانہ پہاڑوں کی چوٹیاں ناپید ہیں۔ اب تو ہر جگہ خطرہ ہی خطرہ ہے، تاہم اپنے دین اسلام کو بچانے کے لیے علیحدہ گھر ہی اس انسان کے لیے بہتر ہے جو شہرت اور نمودونمائش کا طالب نہ ہو، بلکہ صرف گناہوں سے محفوظ رہنا مقصود ہو، نیز جمعہ، جماعت اور دیگر فرائض اسلام بھی ترک نہ کرے۔
(2) واضح رہے کہ فتنوں سے مراد ایسے حالات ہیں کہ لوگوں سے ملنے کی صورت میں انسان کے دین کو خطرہ ہو، بصورت دیگر اپنے ماحول اور معاشرے میں رہنا ہی بہتر ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’جو مومن لوگوں سے ملتا جلتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ ثواب حاصل کر لیتا ہے جو لوگوں سے ملتا جلتا نہیں اور نہ ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر ہی کرتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الفتن، حدیث: 4032)
(3) لوگوں سے میل جول میں اچھے برے ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ معاشرے میں برائی زیادہ ہو جائے تب بھی الگ تھلگ ہو جانا اچھا نہیں بلکہ معاشرے میں رہ کر اصلاح کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ تیمارداری کا ثواب، سلام کرنے اور صلہ رحمی کا اجر اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان معاشرے میں رہے گا۔ واللہ أعلم