تشریح:
1۔ صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اہل عجم کو مکتوب لکھنے کا ارادہ فرمایا (حدیث:5872)، دوسری روایت کے مطابق اہل روم کو خط لکھنے کا پروگرام بنایا(حدیث: 5875)۔ بہرحال جب آپ نے سلاطین عالم کے نام دعوتی خطوط بھیجنے کاارادہ فرمایا تو آپ کو بتایا گیا کہ جس خط پر مہر نہ ہو، یہ لوگ اسے ہاتھ نہیں لگاتے۔ چونکہ مقصد ان لوگوں تک دعوت اسلام پہنچانا تھا، اس لیے آپ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو بنیاد بنا کر یہ تنبیہ کی ہے کہ مکاتبہ وہ معتبر ہوگا جس پر مہرہو۔ یہ بھی اعتماد کے لیے ہے۔ اگرمکتوب الیہ تحریر پہچانتا ہو اور اسے اعتماد ہوتو غیر مختوم تحریر پر عمل بھی درست ہے۔ اگر مکتوب الیہ تحریر نہیں پہچانتا اور اسے اعتماد بھی نہیں تو صرف مہر کا اعتبار نہیں کیا جائےگا کیونکہ مہر بھی جعلی ہوسکتی ہے۔ اس حدیث سے اتنا تو معلوم ہوا کہ علم کے سلسلے میں مکاتبت کا اعتبار ہے لیکن شرط یہی ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک انتقال میں کوئی کمزوری نہ آئے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مکاتبت کی صورت بھی مشافہت(رُو دررُو) کی طرح لائق استناد ہے۔
2۔ آپ نے چاندی کی انگوٹھی اس لیے بنوائی تھی تاکہ آپ کے خطوط کا اعتبار کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ انگوٹھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اپنے پاس رکھا، بالآخر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہی حتیٰ کہ بئراریس میں گرگئی اور تلاش بسیار کے باوجود نہ مل سکی۔ انگوٹھی کے متعلق مفصل گفتگو کتاب اللباس میں کی جائےگی۔ 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اقسام تحمل حدیث سے صرف چار کا ذکر کیا ہے۔ (1)۔ سماع من الشیخ۔
(2)۔ قراءۃ علی الشیخ۔ (3)۔ مناولہ۔ (4)۔ مکاتبہ۔
باقی اقسام: وجادہ، اعلام ، وصیہ، جن میں اجازت نہیں ہوتی، کا ذکر نہیں کیا۔ کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (فتح الباري: 205/1)