Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The superiority of being poor)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6507.
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں نے جنت میں نظر ڈالی تو اس میں رہنے والے اکثر فقراء اور غریب لوگ تھے اور میں نے دوزخ میں جھانکا تو اس میں اکثر عورتوں کو دیکھا۔“ ایوب اور عوف نے اس حدیث کے بیان کرنے میں ابو رجاء کی متابعت کی ہے۔ صخر اور حماد بن نجیع نے ابو رجاء سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) ایک دوسری حدیث میں ان فاقہ کش صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف دوسرے انداز سے کی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس تین شخص آئے، انہوں نے کہا: اے ابو محمد! ہمارے پاس کچھ بھی نہیں، کوئی خرچہ ہے نہ سواری اور نہ سازوسامان ہی۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم کیا چاہتے ہو؟ اگر تم کچھ مال چاہتے ہو تو ہمارے پاس پھر آنا، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جو میسر فرمایا وہ ہم تمہیں عطا کریں گے اور اگر تم چاہو تو ہم تمہارا معاملہ حاکم وقت سے ذکر کر دیں گے؟ اگر تم چاہو تو صبر کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مہاجر فقراء قیامت کے دن مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ یہ بشارت سن کر تنگ دست فقراء نے کہا کہ ہم صبر کرتے ہیں اور ہم آپ سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ (صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7463 (2979)) حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بےشک اللہ تعالیٰ اپنے اس عیال دار بندے کو پسند کرتا ہے جو ضرورت مند ہونے کے باوجود سوال نہیں کرتا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4121) (2) واضح رہے کہ جنت میں فقراء لوگوں کی اکثریت ان کا فقر نہیں بلکہ عقیدے کی درستی اور نیک اعمال کا جذبہ ہو گا اور اگر کوئی فقیر نیک کردار نہیں تو وہ قطعاً جنت کا حق دار نہیں ہو گا۔ بہرحال حدیث میں دنیا کی لذتوں سے کنارہ کش ہونے پر ابھارا گیا ہے۔ (فتح الباري: 337/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6220
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6449
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6449
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6449
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
فقر و فاقے کی فضیلت اس بنا پر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس انداز سے انتخاب کیا تھا جیسا کہ گزشتہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی تھی: ''اے میرے پروردگار! میں تو فقیرانہ زندگی چاہتا ہوں کہ ایک دن کھانے کو ہو اور ایک دن کھانے کو نہ ہو۔'' درحقیقت آپ کا جو مقام اور منصب تھا اور جو کار عظیم آپ کے ذمے تھا اس کے لیے فقر و مسکنت کی زندگی ہی شایان شان تھی۔ اگر اللہ تعالیٰ قناعت و طمانیت اور رضا و تسلیم نصیب فرمائے تو بندوں کے لیے بھی بہ نسبت دولت مندی کے فقر و فاقے کی زندگی ہی افضل اور بہتر ہے۔
حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں نے جنت میں نظر ڈالی تو اس میں رہنے والے اکثر فقراء اور غریب لوگ تھے اور میں نے دوزخ میں جھانکا تو اس میں اکثر عورتوں کو دیکھا۔“ ایوب اور عوف نے اس حدیث کے بیان کرنے میں ابو رجاء کی متابعت کی ہے۔ صخر اور حماد بن نجیع نے ابو رجاء سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک دوسری حدیث میں ان فاقہ کش صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف دوسرے انداز سے کی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس تین شخص آئے، انہوں نے کہا: اے ابو محمد! ہمارے پاس کچھ بھی نہیں، کوئی خرچہ ہے نہ سواری اور نہ سازوسامان ہی۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم کیا چاہتے ہو؟ اگر تم کچھ مال چاہتے ہو تو ہمارے پاس پھر آنا، اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جو میسر فرمایا وہ ہم تمہیں عطا کریں گے اور اگر تم چاہو تو ہم تمہارا معاملہ حاکم وقت سے ذکر کر دیں گے؟ اگر تم چاہو تو صبر کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مہاجر فقراء قیامت کے دن مال داروں سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ یہ بشارت سن کر تنگ دست فقراء نے کہا کہ ہم صبر کرتے ہیں اور ہم آپ سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ (صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7463 (2979)) حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بےشک اللہ تعالیٰ اپنے اس عیال دار بندے کو پسند کرتا ہے جو ضرورت مند ہونے کے باوجود سوال نہیں کرتا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4121) (2) واضح رہے کہ جنت میں فقراء لوگوں کی اکثریت ان کا فقر نہیں بلکہ عقیدے کی درستی اور نیک اعمال کا جذبہ ہو گا اور اگر کوئی فقیر نیک کردار نہیں تو وہ قطعاً جنت کا حق دار نہیں ہو گا۔ بہرحال حدیث میں دنیا کی لذتوں سے کنارہ کش ہونے پر ابھارا گیا ہے۔ (فتح الباري: 337/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے سلم بن زریر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو رجاء عمران بن تمیم نے بیان کیا، ان سے عمران بن حصین ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں جنت میں جھانکا تو اس میں رہنے والے اکثر غریب لوگ تھے اور میں نے دوزخ میں جھانکا تو اس کی رہنے والیاں اکثر عورتیں تھيں۔ ابورجاء کے ساتھ اس حدیث کو ایوب سختیانی اور عوف اعرابی نے بھی روایت کیا ہے اورصخربن جویریہ اور حماد بن نجیح دونوں اس حدیث کو ابو رجاء سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓماسے روایت کیا۔
حدیث حاشیہ:
ایوب کی روایت کو امام نسائی نے اور عوف کی روایت کو امام بخاری نے کتاب النکاح میں وصل کیا ہے۔ جنت میں غریب لوگوں سے فقرائے موحدین متبع سنت مراد ہیں اور دوزخ میں عورتوں سے بدکار عورتیں مراد ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Imran bin Husain (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "I looked into Paradise and found that the majority of its dwellers were the poor people, and I looked into the (Hell) Fire and found that the majority of its dwellers were women."