باب: نبی کریم ﷺاور آپ ﷺ کے صحابہ کے گزران کا بیان اور دنیا کے مزوں سے ان کا علیحدہ رہنا
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: How the Prophet (saws) and his Companions used to live)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6511.
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں سب سے پہلا عربی ہوں جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا۔ ہم نے اس حال میں وقت گزارا ہے کہ ہم جہاد کرتے تھے لیکن ہمارے پاس حبلہ کے پتوں اور کیکر کے چھلکے کے علاوہ دوسری کوئی چیز کھانے کے لیے نہ تھی اور ہمیں بکری کی مینگنیوں کی طرح قضائے حاجت ہوتی تھی۔ (خشکی کے سبب) اس میں کچھ بھی خلط ملط نہ ہوتا تھا اب یہ بنو اسد کے لوگ مجھے اسلام سکھا کر درست کرنا چاہتے ہیں پھر تو میں بد نصیب ٹھہرا اور میرا سارا کیا دھر اکارت گیا۔
تشریح:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں کوفے کے گورنر تھے۔ اہل کوفہ انتہائی سازشی اور مکار تھے۔ بنو اسعد قبیلے نے تو حد کر دی تھی۔ انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق شکایت کی تھی کہ یہ حضرت جہاد میں نہیں جاتے۔ فیصلے کرتے وقت عدل و انصاف سے کام نہیں لیتے اور نماز بھی صحیح طور پر نہیں پڑھاتے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی تردید میں مذکورہ بیان دیا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے دور نبوی میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے گزر اوقات کی وضاحت کی ہے کہ انہوں نے مشکل حالات میں اسلام قبول کیا اور درختوں کے پتے کھا کر جہاد میں حصہ لیا۔ کیکر کے پتے کھانے اور اس کا چھلکا چبانے کی وجہ سے انھیں جو قضائے حاجت ہوتی وہ خشک ہونے کا باعث ایک دوسرے سے الگ ہوتی اور اس میں اختلاط نہیں ہوتا تھا۔ ایسے حالات میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دین اسلام کے احکام کو خوب بجا لاتے اور ان کے متعلق انھیں پوری پوری معلومات حاصل تھیں۔ (3) اس قسم کے حالات اس وقت تھے جب فتوحات کا دروازہ نہیں کھلا تھا۔ فتح خیبر کے بعد کافی حالات تبدیل ہو گئے تھے، لیکن اس کے باوجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: ’’آلِ محمد نے تین دن متواتر گندم کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5416)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6224
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6453
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6453
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6453
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی اس قدر سادہ اور درویشانہ تھی کہ موجودہ رہن سہن کو دیکھ کر اس سادہ زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آج تو ہر شخص دنیاوی عیش و آرام میں غرق نظر آتا ہے۔ درج ذیل احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی گزر اوقات اور اندازِ زندگی کی معمولی سی جھلک پیش کی گئی ہے۔ چونکہ ان کے سامنے ''لا عيش إلا عيش الآخرة'' (صحیح البخاری، الصلاۃ، حدیث: 442) کا تصور تھا، اس لیے دنیاوی ٹھاٹھ باٹھ سے وہ کوسوں دور تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اصحاب صفہ کے متعلق ان الفاظ میں اظہار خیال کرتے تھے: میں نے ستر کے قریب اصحاب صفہ کو دیکھا، ان میں سے کسی ایک پر بھی بڑی چادر نہ تھی۔ ان پر تہ بند ہوتا یا ایک چادر ہوتی۔ انہوں نے اس کے کنارے گردنوں سے باندھ رکھے ہوتے تھے۔ ان میں سے کچھ کی چادریں نصف پنڈلی تک اور کچھ کی ٹخنوں تک پہنچی تھیں اور وہ اسے اپنے ہاتھ سے اکٹھا کرتا تاکہ اس کا ستر نہ کھل جائے۔ (صحیح البخاری، المغازی، حدیث: 4243) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے فتح خیبر سے پہلے کبھی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا تھا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں سب سے پہلا عربی ہوں جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلایا۔ ہم نے اس حال میں وقت گزارا ہے کہ ہم جہاد کرتے تھے لیکن ہمارے پاس حبلہ کے پتوں اور کیکر کے چھلکے کے علاوہ دوسری کوئی چیز کھانے کے لیے نہ تھی اور ہمیں بکری کی مینگنیوں کی طرح قضائے حاجت ہوتی تھی۔ (خشکی کے سبب) اس میں کچھ بھی خلط ملط نہ ہوتا تھا اب یہ بنو اسد کے لوگ مجھے اسلام سکھا کر درست کرنا چاہتے ہیں پھر تو میں بد نصیب ٹھہرا اور میرا سارا کیا دھر اکارت گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں کوفے کے گورنر تھے۔ اہل کوفہ انتہائی سازشی اور مکار تھے۔ بنو اسعد قبیلے نے تو حد کر دی تھی۔ انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق شکایت کی تھی کہ یہ حضرت جہاد میں نہیں جاتے۔ فیصلے کرتے وقت عدل و انصاف سے کام نہیں لیتے اور نماز بھی صحیح طور پر نہیں پڑھاتے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی تردید میں مذکورہ بیان دیا۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے دور نبوی میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے گزر اوقات کی وضاحت کی ہے کہ انہوں نے مشکل حالات میں اسلام قبول کیا اور درختوں کے پتے کھا کر جہاد میں حصہ لیا۔ کیکر کے پتے کھانے اور اس کا چھلکا چبانے کی وجہ سے انھیں جو قضائے حاجت ہوتی وہ خشک ہونے کا باعث ایک دوسرے سے الگ ہوتی اور اس میں اختلاط نہیں ہوتا تھا۔ ایسے حالات میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم دین اسلام کے احکام کو خوب بجا لاتے اور ان کے متعلق انھیں پوری پوری معلومات حاصل تھیں۔ (3) اس قسم کے حالات اس وقت تھے جب فتوحات کا دروازہ نہیں کھلا تھا۔ فتح خیبر کے بعد کافی حالات تبدیل ہو گئے تھے، لیکن اس کے باوجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: ’’آلِ محمد نے تین دن متواتر گندم کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5416)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں سب سے پہلا عرب ہوں جس نے اللہ کے راستے میں تیر چلائے۔ ہم نے اس حال میں وقت گزارا ہے کہ جہا د کر رہے ہیں اور ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیز حبلہ کے پتوں اور اس ببول کے سوا کھانے کے لئے نہیں تھی اور بکری کی مینگنیوں کی طرح ہم پاخانہ کیا کرتے تھے۔ اب یہ بنو اسد کے لوگ مجھ کو اسلام سکھلا کر درست کرنا چاہتے ہیں پھر تو میں بالکل بدنصیب ٹھہرا اور میرا سارا کیا کرایا اکارت گیا۔
حدیث حاشیہ:
بنو اسد نے ان پر کچھ ذاتی اعتراض کئے تھے جو غلط تھے ان کے بارے میں انہوں نے یہ بیان دیا ہے۔ حدیث میں فقرکا ذکر ہے یہی باب سے مناسبت ہے۔ یہ بنو اسد وفات نبوی کے بعد مرتد ہو کر طلیحہ بن خویلد کے پیرو ہو گئے تھے جس نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تھا حضرت خالد بن ولید نے ان کو مار کر پھر مسلمان بنایا ان لوگوں نے حضرت عمر سے سعد بن ابی وقاص کی شکایت کی تھی۔ سعد کوفہ کے حاکم تھے۔ حضرت سعد نے فرمایا کہ چہ خوش کل کے مسلمان مجھ کو پڑھانے بیٹھے ہیں۔ حبلہ اور سمر کانٹے دار درخت ہوتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sa'd (RA) : I was the first man among the Arabs to throw an arrow for Allah's Cause. We used to fight in Allah's Cause while we had nothing to eat except the leaves of the Hubla and the Sumur trees (desert trees) so that we discharged excrement like that of sheep (i.e. unmixed droppings). Today the (people of the) tribe of Bani Asad teach me the laws of Islam. If so, then I am lost, and all my efforts of that hard time had gone in vain.