تشریح:
(1) اس حدیث میں مرتدین کا ذکر ہے، جن سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جہاد کیا جیسا کہ ایک روایت میں حضرت قبیصہ نے اس کی وضاحت کی ہے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3447) یا اس سے دیہاتیوں کی وہ جماعت مراد ہے جو ابھی تک تہذیب و اخلاق سے مزین نہ ہوئے تھے اور نہ اسلام ان کے دلوں میں داخل ہی ہوا تھا۔ بعض اہل علم نے منافقین کی جماعت مراد لی ہے جو اسلام کی حقانیت کے پیش نظر نہیں بلکہ دنیوی لالچ اور مفاد پرستی کی خاطر دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی صحیح صورت حال واضح ہوئی تو آپ نے بھی ان کے متعلق کسی قسم کا نرم گوشہ نہیں رکھا بلکہ فرمایا: ’’تباہی اور بربادی ہو اس انسان کے لیے جس نے میرے بعد میرے دین کو بدل کر رکھ دیا۔‘‘ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7051)
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے قیامت کے دن لوگوں کے اٹھائے جانے کی کیفیت کو بیان کیا ہے کہ وہ بالکل برہنہ حالت میں، یعنی ننگے بدن اٹھائے جائیں گے جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر قرآن پاک کی آیت تلاوت کر کے ہمیں آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ سب اپنی قبروں سے ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر ختنہ شدہ اٹھیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ سچا ہے اور وہ ایسا کر کے رہے گا۔ اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ واللہ المستعان