باب: نیک عمل پر ہمیشگی کرنا اور درمیانی چال چلنا ( نہ کمی ہو نہ زیادتی)
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The adoption of a middle course, and the regularity of deeds)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6526.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک دن نماز پڑھائی، پھر منبر پر تشریف لے گئے اور اپنے ہاتھ سے مسجد کے قبلے کی طرف اشارہ فرمایا جب میں نے تمہیں نماز پڑھائی تو اس وقت مجھے اس دیوار کی طرف جنت اور دوزخ کی تصویر دکھائی گئی۔ میں نے آج تک بہشت کی سى خوبصورت چیز اور جہنم کی سی ڈروانی شکل نہیں دیکھی۔ میں نے آج کے دن کی طرح خیر اور شر جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں نمازی کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت جنت اور دوزخ کا اپنے سامنے استحضار کرے تاکہ نماز میں شیطان کے وسوسے سے پیدا ہونے والی سوچ بچار سے محفوظ رہے۔ جو شخص انہیں اپنے ذہن میں رکھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مصروف اور اس کی نافرمانی سے محفوظ رہے گا۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں عمل پر ہمیشگی کرنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جو شخص جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے ظاہر کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لگا رہے گا اور اس کی نافرمانی سے رک جائے گا۔ اس طرح حدیث کی عنوان سے مطابقت بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ اعتدال کے ساتھ نیک عمل پر ہمیشگی کرنی چاہیے۔ (فتح الباري: 363/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6239
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6468
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6468
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6468
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک دن نماز پڑھائی، پھر منبر پر تشریف لے گئے اور اپنے ہاتھ سے مسجد کے قبلے کی طرف اشارہ فرمایا جب میں نے تمہیں نماز پڑھائی تو اس وقت مجھے اس دیوار کی طرف جنت اور دوزخ کی تصویر دکھائی گئی۔ میں نے آج تک بہشت کی سى خوبصورت چیز اور جہنم کی سی ڈروانی شکل نہیں دیکھی۔ میں نے آج کے دن کی طرح خیر اور شر جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں نمازی کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت جنت اور دوزخ کا اپنے سامنے استحضار کرے تاکہ نماز میں شیطان کے وسوسے سے پیدا ہونے والی سوچ بچار سے محفوظ رہے۔ جو شخص انہیں اپنے ذہن میں رکھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مصروف اور اس کی نافرمانی سے محفوظ رہے گا۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں عمل پر ہمیشگی کرنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جو شخص جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے ظاہر کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لگا رہے گا اور اس کی نافرمانی سے رک جائے گا۔ اس طرح حدیث کی عنوان سے مطابقت بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ اعتدال کے ساتھ نیک عمل پر ہمیشگی کرنی چاہیے۔ (فتح الباري: 363/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے بلال بن علی نے بیان کیا کہ میں نے حضرت انس بن مالک ؓ کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک دن نماز پڑھائی، پھر منبر پر چڑھے اور اپنے ہاتھ سے مسجد کے قبلہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اس وقت جب میں نے تمہیں نماز پڑھائی تو مجھے اس دیوار کی طرف جنت اور دوزخ کی تصویر دکھائی گئی میں نے (ساری عمر میں) آج کی طرح نہ کوئی بہشت کی سی خوبصورت چیز دیکھی نہ دوزخ کی سی ڈراؤنی۔ میں نے آج کی طرح نہ کوئی بہشت کی سی خوبصورت چیز دیکھی نہ دوزخ کی سی ڈرؤنی چیز۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Once Allah's Apostle (ﷺ) led us in prayer and then (after finishing it) ascended the pulpit and pointed with his hand towards the Qibla of the mosque and said, "While I was leading you in prayer, both Paradise and Hell were displayed in front of me in the direction of this wall. I had never seen a better thing (than Paradise) and a worse thing (than Hell) as I have seen today, I had never seen a better thing and a worse thing as I have seen today."