تشریح:
(1) اس قدر پیسنے کی کثرت اور زیادتی قیامت کی ہولناکیوں، لوگوں کے ہجوم اور سورج کے قریب آنے کی بنا پر ہو گا۔ لیکن کامل ایمان والے لوگ اس تکلیف اور پریشانی سے محفوظ ہوں گے۔ یہ پسینہ میدان محشر میں ہو گا لیکن بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ جہنم میں بھی اس تکلیف سے دوچار ہونا پڑے گا۔
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور شہداء اس آزمائش سے محفوظ ہوں گے۔ کفار تو پسینے میں ڈبکیاں لے رہے ہوں گے اور کبیرہ گناہوں والے اپنے اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں شرابور ہوں گے لیکن یہ حضرات کفار کے مقابلے میں بہت تھوڑی تعداد میں ہوں گے۔
(3) ان احادیث کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان ابھی سے بچنے کی فکر کرے اور ایسے اسباب عمل میں لائے جو اس کی نجات کا باعث ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور گناہوں سے توبہ کا نذرانہ پیش کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی اس سے نجات دینے والا ہے۔ (فتح الباري: 480/11)