تشریح:
(1) جہنم سے چھٹکارا پانے کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان پل صراط سے بحفاظت گزر جائیں گے جیسا کہ ایک روایت میں صراحت ہے: ’’جب مومن جہنم پر رکھے ہوئے پل صراط سے حفاظت کے ساتھ گزر جائیں گے۔‘‘ (صحیح البخاري، المطالم، حدیث: 2440)
(2) جس پل پر اہل ایمان کو روک لیا جائے گا وہ جنت کی پل صراط ہی کا ایک حصہ ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کوئی دوسرا پل ہو۔
(3) واضح رہے کہ تمام اہل ایمان کو وہاں نہیں روکا جائے گا بلکہ وہ لوگ جو حساب کے بغیر جنت میں جائیں گے یا جن کے اعمال انہیں جہنم میں لے جائیں گے انہیں وہاں نہیں روکا جائے گا۔ (فتح الباري: 485/11) اگر کسی نے رائی کے دانے کے برابر بھی کسی دوسرے پر ظلم کیا ہو گا تو اسے بھی قصاص دینا پڑے گا جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے۔ (الأنبیاء:47/21)
(4) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک روایت کے مطابق فرشتے دائیں بائیں سے اہل جنت کو جنت کے راستے بتائیں گے جبکہ اس حدیث میں ہے کہ وہ خود جنت میں اپنے ٹھکانے کو پہچانتے ہوں گے؟ ممکن ہے کہ جنت میں داخلے سے پہلے فرشتے ان کی رہنمائی کریں، پھر جنت میں داخل ہو کر وہ خود اپنے مقام کو پہچان لیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بشارت اور عزت و تکریم میں مبالغے کے طور پر فرشتے انہیں جنت میں جانے کے بعد بھی راستوں کی رہنمائی کریں کیونکہ اپنا مکان پہچان لینے کے بعد یہ ضروری نہیں کہ جنت کے تمام راستے انہیں معلوم ہوں۔ جنت بہت بڑا شہر ہی نہیں بلکہ ملک عظیم ہے، اس کے سامنے تو پوری دنیا کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ (فتح الباري: 486/11)