Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Congregational Salat (prayer) is obligatory)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر کسی شخص کی ماں اس کو محبت کی بنا پر عشاء کی نماز باجماعت کے لیے مسجد میں جانے سے روک دے تو اس شخص کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ماں کی بات نہ مانے۔
654.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ کسی کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں تاکہ لکڑیوں کا ڈھیر لگ جائے، پھر نماز کے لیے کسی کو اذان دینے کے متعلق کہوں، پھر کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کا امام بنے اور میں خود ان لوگوں کے پاس جاؤں (جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے)، پھر انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کسی کو معلوم ہو جائے کہ وہ مسجد میں موٹی ہڈی یا دو عمدہ گوشت والے پائے حاصل کرے گا تو وہ نماز عشاء میں ضرور حاضر ہو۔‘‘
تشریح:
1۔ نماز باجماعت کے متعلق مندرجہ ذیل متعدد اقوال ہیں: فرض عین، فرض کفایہ، سنت مؤکدہ، مستحب، صحت نماز کےلیے شرط۔ اگر ترک جماعت پر وعید کی احادیث کو دیکھا جائے تو اس کے متعلق فرض ہونے کا درجہ سمجھ میں آتا ہے اور اگر ان احادیث کو دیکھا جائے جن میں بظاہر معمولی عذر کی وجہ سے ترک جماعت کی گنجائش نکلتی ہے تو اس کے متعلق سنت ہونے کا گمان ہوتا ہے، مثلا: بارش، سخت، سردی، سخت گرمی، کھانے پینے یا انسانی ضرورت کی حاجت وغیرہ۔ البتہ امام بخاری ؒ نے نماز باجماعت کے متعلق فرض عین ہونے کا موقف اختیار کیا ہے، کیونکہ اگر باجماعت نماز پڑھنا سنت ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس کے تارک کو جلا دینے کی دھمکی نہ دیتے، لیکن آپ نے اس دھمکی کو عملی شکل اس لیے نہیں دی کہ ایسا کرنے سے ان لوگوں کونقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا جن پر نماز باجماعت فرض نہیں ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر ان کے گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے تو میں ضرور ان کے گھروں کو جلا دیتا۔‘‘(مسند أحمد:367/2) (2) امام بخاری ؒ کے موقف کی درج ذیل احادیث سے بھی تائید ہوتی ہے:٭حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک نابینے نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے گھر نماز ادا کرنے کی اجازت کی تو آپ نے پوچھا:’’کیا تم اذان سنتے ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا: ہاں۔آپ نے فرمایا:’’پھر اس کا جواب دو، یعنی مسجد میں حاضر ہوکرنماز باجماعت ادا کرو۔‘‘(صحیح مسلم ، المساجد، حدیث:1486(653))٭حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اذان سنے ،پھر نماز باجماعت ادا نہ کرے تو اس کی کوئی نماز نہیں الایہ کہ کوئی عذر حائل ہو‘‘(سنن ابن ماجة، المساجد والجماعات، حدیث:793) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:نماز باجماعت سے صرف ایسا منافق ہی پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق واضح ہوتا تھا یا کوئی بے چارہ مریض ہوتا تھا حتیٰ کہ وہ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر چلتا اور باجماعت نماز میں شریک ہوتا۔(مسند أحمد:382/1)٭حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی اذان کہے اور جو تم میں سے بڑا ہو،وہ امامت کرائے۔‘‘(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:628)٭ حضرت ابو درداء سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’کسی بھی بستی یاد یہات میں تین آدمی ہوں اور وہ باجماعت نماز ادا نہ کریں تو شیطان ان پر حملہ کردیتا ہے،اس لیے جماعت کو لازم پکڑو کیونکہ بھیڑیا اس بکری کو اپنا لقمہ بنالیتا ہے جو ریوڑ سے دور رہتی ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:547) اس کے علاوہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾ ’’اور تم رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘(البقرة 2:43) اور مذکورہ امر وجوب کے لیے ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے میدان جنگ میں بھی بحالت خوف نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (النساء 4: 102) جب ایسے حالات میں نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم ہے تو حالت امن میں تو بالاولی اسے واجب ہونا چاہیے۔ مذکورہ احادیث وآیات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا فرض عین ہے۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
639
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
644
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
644
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
644
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے آئندہ احادیث پر کوئی بڑا عنوان قائم نہیں کیا کیونکہ ان کا اذان سے بہت گہرا تعلق ہے لیکن محدث ابو نعیم نے اپنی کتاب المستخرج میں یہاں كتاب صلاة الجماعة کا عنوان قائم کیا ہے،شاید ان کے شیخ ابو احمد جرجانی کی روایت میں ایسا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ٹھوس دلائل کی وجہ سے نماز باجماعت کے فرض ہونے پر فیصلہ کن عنوان قائم کیا ہے۔اس سلسلے میں انھوں نے جو احادیث پیش کی ہیں،ان میں متعدد احتمالات میں سے کسی ایک کو متعین کرنے کےلیے امام حسن بصری کا قول پیش کیا ہے۔شارحین میں سے کسی نے بھی اس اثر کےموصول ہونے کی نشاندہی نہیں کی،البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس اثر کو حسن بن حسن مروزی نے اپنی تالیف" کتاب الصیام" میں صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے جو عبارت کے لحاظ سے زیادہ کامل اور معنی کے اعتبار سے بہت واضح ہے۔امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی نفلی روزہ رکھتا ہے اور اس کی والدہ اسے روزہ چھوڑ دینے کا حکم دیتی ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی والدہ کی اطاعت کرتے ہوئے روزہ افطار کردے،ایسا کرنے سے اس کے ذمے کوئی قضا وغیرہ نہیں بلکہ اسے روزے اور والدہ کی اطاعت کا اجر ملے گا۔اور اگر اسے عشاء کی نماز باجماعت ادا کرنے سے روکتی ہے تو اس کا انکار کردے کیونکہ نماز باجماعت کا ادا کرنا فرض ہے اور والدہ کو فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ بننے کی شرعا اجازت نہیں۔(فتح الباری:2/165)
اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر کسی شخص کی ماں اس کو محبت کی بنا پر عشاء کی نماز باجماعت کے لیے مسجد میں جانے سے روک دے تو اس شخص کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ماں کی بات نہ مانے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ کسی کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں تاکہ لکڑیوں کا ڈھیر لگ جائے، پھر نماز کے لیے کسی کو اذان دینے کے متعلق کہوں، پھر کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کا امام بنے اور میں خود ان لوگوں کے پاس جاؤں (جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے)، پھر انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کسی کو معلوم ہو جائے کہ وہ مسجد میں موٹی ہڈی یا دو عمدہ گوشت والے پائے حاصل کرے گا تو وہ نماز عشاء میں ضرور حاضر ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ نماز باجماعت کے متعلق مندرجہ ذیل متعدد اقوال ہیں: فرض عین، فرض کفایہ، سنت مؤکدہ، مستحب، صحت نماز کےلیے شرط۔ اگر ترک جماعت پر وعید کی احادیث کو دیکھا جائے تو اس کے متعلق فرض ہونے کا درجہ سمجھ میں آتا ہے اور اگر ان احادیث کو دیکھا جائے جن میں بظاہر معمولی عذر کی وجہ سے ترک جماعت کی گنجائش نکلتی ہے تو اس کے متعلق سنت ہونے کا گمان ہوتا ہے، مثلا: بارش، سخت، سردی، سخت گرمی، کھانے پینے یا انسانی ضرورت کی حاجت وغیرہ۔ البتہ امام بخاری ؒ نے نماز باجماعت کے متعلق فرض عین ہونے کا موقف اختیار کیا ہے، کیونکہ اگر باجماعت نماز پڑھنا سنت ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس کے تارک کو جلا دینے کی دھمکی نہ دیتے، لیکن آپ نے اس دھمکی کو عملی شکل اس لیے نہیں دی کہ ایسا کرنے سے ان لوگوں کونقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا جن پر نماز باجماعت فرض نہیں ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر ان کے گھروں میں عورتیں اور بچے نہ ہوتے تو میں ضرور ان کے گھروں کو جلا دیتا۔‘‘(مسند أحمد:367/2) (2) امام بخاری ؒ کے موقف کی درج ذیل احادیث سے بھی تائید ہوتی ہے:٭حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک نابینے نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے گھر نماز ادا کرنے کی اجازت کی تو آپ نے پوچھا:’’کیا تم اذان سنتے ہو؟‘‘ اس نے عرض کیا: ہاں۔آپ نے فرمایا:’’پھر اس کا جواب دو، یعنی مسجد میں حاضر ہوکرنماز باجماعت ادا کرو۔‘‘(صحیح مسلم ، المساجد، حدیث:1486(653))٭حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اذان سنے ،پھر نماز باجماعت ادا نہ کرے تو اس کی کوئی نماز نہیں الایہ کہ کوئی عذر حائل ہو‘‘(سنن ابن ماجة، المساجد والجماعات، حدیث:793) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:نماز باجماعت سے صرف ایسا منافق ہی پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق واضح ہوتا تھا یا کوئی بے چارہ مریض ہوتا تھا حتیٰ کہ وہ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر چلتا اور باجماعت نماز میں شریک ہوتا۔(مسند أحمد:382/1)٭حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی اذان کہے اور جو تم میں سے بڑا ہو،وہ امامت کرائے۔‘‘(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:628)٭ حضرت ابو درداء سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’کسی بھی بستی یاد یہات میں تین آدمی ہوں اور وہ باجماعت نماز ادا نہ کریں تو شیطان ان پر حملہ کردیتا ہے،اس لیے جماعت کو لازم پکڑو کیونکہ بھیڑیا اس بکری کو اپنا لقمہ بنالیتا ہے جو ریوڑ سے دور رہتی ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:547) اس کے علاوہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴾ ’’اور تم رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘(البقرة 2:43) اور مذکورہ امر وجوب کے لیے ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے میدان جنگ میں بھی بحالت خوف نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (النساء 4: 102) جب ایسے حالات میں نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم ہے تو حالت امن میں تو بالاولی اسے واجب ہونا چاہیے۔ مذکورہ احادیث وآیات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا فرض عین ہے۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
امام حسن بصری بیان کرتے ہیں اگر والدہ محترمہ ازراہ شفقت اپنے بیٹے کو عشاء کی نماز باجماعت پڑھنے سے منع کرے تو وہ اس کا کہا نہ مانے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں۔ پھر نماز کے لیے کہوں، اس کے لیے اذان دی جائے پھر کسی شخص سے کہوں کہ وہ امامت کرے اور میں ان لوگوں کی طرف جاؤں (جو نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے) پھر انھیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر یہ جماعت میں نہ شریک ہونے والے لوگ اتنی بات جان لیں کہ انھیں مسجد میں ایک اچھے قسم کی گوشت والی ہڈی مل جائے گی یا دو عمدہ کھر ہی مل جائیں گے تو یہ عشاء کی جماعت کے لیے مسجد میں ضرور حاضر ہو جائیں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا جس قدر ضروری معلوم ہوتا ہے وہ الفاظ حدیث سے ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ نے تارکین جماعت کے لیے ان کے گھروں کو آگ لگانے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ اسی لیے جن علماء نے نماز کو جماعت کے ساتھ فرض قرار دیا ہے، یہ حدیث ان کی اہم دلیل ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں: والحدیث استدل به القائلون بوجوب صلوٰة الجماعة لأنها لوکانت سنة لم یهدد تارکها بالتحریق۔یعنی اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل پکڑی ہے جو نماز باجماعت کو واجب قراردیتے ہیں۔ اگریہ محض سنت ہوتی تواس کے چھوڑنے والے کو آگ میں جلانے کی دھمکی نہ دی جاتی۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ اگرنماز باجماعت ہی فرض ہوتی توآپ ﷺ ان کو بغیر جلائے نہ چھوڑتے۔ آپ کا اس سے رک جانا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ فرض نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ نیل الاوطار میں تفصیل سے ان مباحت کو لکھا گیاہے۔ من شاء فلیرجع إلیه۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "By Him in Whose Hand my soul is I was about to order for collecting fire-wood (fuel) and then order Someone to pronounce the Adhan for the prayer and then order someone to lead the prayer then I would go from behind and burn the houses of men who did not present themselves for the (compulsory congregational) prayer. By Him, in Whose Hands my soul is, if anyone of them had known that he would get a bone covered with good meat or two (small) pieces of meat present in between two ribs, he would have turned up for the 'Isha' prayer.'