Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The Fire is surrounded by al kinds of desires and passions)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6545.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دوزخ کے ارد گرد نفسانی خواہشات کی باڑ لگا دی گئی ہے جبکہ جنت اور دشواریوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔“
تشریح:
(1) اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص شہوات نفسانی کا پرستار ہو اس نے گویا دوزخ کا حجاب اٹھا دیا اور وہ جہنم میں پہنچ جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ’’جس نے سرکشی کی اور دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی، تو یقیناً اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘(النازعات: 37-38) اس کے برعکس جو مکروہات اور مشکلات برداشت کر کے دین اسلام پر عمل کرتا ہے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا مہمان ہو گا اور اسے جنت میں اعزاز کے ساتھ داخل کیا جائے گا۔ اللهم اجعلنا من أهلها (2) اس حدیث کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جب جنت کو پیدا کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام سے کہا: جاؤ اور اسے دیکھ کر آؤ، چنانچہ وہ گئے، اسے دیکھا پھر واپس آئے تو کہا: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! اس کے متعلق جو کوئی بھی سنے گا، اس میں داخل ہونا چاہے گا، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مکروہات کے گھیرے میں دے دیا، پھر فرمایا: اے جبریل! اب جاؤ اور اسے دیکھ کر آؤ، چنانچہ وہ گئے اور اسے دیکھ کر واپس آئے، پھر عرض کی: اے میرے رب! مجھے تیری عزت کی قسم! مجھے خطرہ ہے کہ اس میں کوئی بھی داخل نہیں ہو سکے گا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو پیدا کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام سے کہا: جاؤ اور دوزخ کو دیکھ کر آؤ۔ وہ گئے اور اسے دیکھ کر واپس آئے تو عرض کی: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! کوئی نہیں جو اس کے متعلق سنے اور پھر اس میں داخل ہو، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے نفسانی خواہشات کے گھیرے میں دے دیا، اس کے بعد جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا: جاؤ اسے دیکھ کر آؤ۔ وہ گئے اور اسے دیکھ کر واپس آئے تو عرض کی: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! تیرے جلال کی قسم! مجھے خطرہ ہے کہ اس میں داخل ہونے سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔‘‘ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4744)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6258
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6487
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6487
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6487
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دوزخ کے ارد گرد نفسانی خواہشات کی باڑ لگا دی گئی ہے جبکہ جنت اور دشواریوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص شہوات نفسانی کا پرستار ہو اس نے گویا دوزخ کا حجاب اٹھا دیا اور وہ جہنم میں پہنچ جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ’’جس نے سرکشی کی اور دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی، تو یقیناً اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘(النازعات: 37-38) اس کے برعکس جو مکروہات اور مشکلات برداشت کر کے دین اسلام پر عمل کرتا ہے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا مہمان ہو گا اور اسے جنت میں اعزاز کے ساتھ داخل کیا جائے گا۔ اللهم اجعلنا من أهلها (2) اس حدیث کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جب جنت کو پیدا کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام سے کہا: جاؤ اور اسے دیکھ کر آؤ، چنانچہ وہ گئے، اسے دیکھا پھر واپس آئے تو کہا: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! اس کے متعلق جو کوئی بھی سنے گا، اس میں داخل ہونا چاہے گا، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مکروہات کے گھیرے میں دے دیا، پھر فرمایا: اے جبریل! اب جاؤ اور اسے دیکھ کر آؤ، چنانچہ وہ گئے اور اسے دیکھ کر واپس آئے، پھر عرض کی: اے میرے رب! مجھے تیری عزت کی قسم! مجھے خطرہ ہے کہ اس میں کوئی بھی داخل نہیں ہو سکے گا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو پیدا کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام سے کہا: جاؤ اور دوزخ کو دیکھ کر آؤ۔ وہ گئے اور اسے دیکھ کر واپس آئے تو عرض کی: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! کوئی نہیں جو اس کے متعلق سنے اور پھر اس میں داخل ہو، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے نفسانی خواہشات کے گھیرے میں دے دیا، اس کے بعد جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا: جاؤ اسے دیکھ کر آؤ۔ وہ گئے اور اسے دیکھ کر واپس آئے تو عرض کی: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! تیرے جلال کی قسم! مجھے خطرہ ہے کہ اس میں داخل ہونے سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔‘‘ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4744)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابو الزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دوزخ خواہشات نفسانی سے ڈھک دی گئی ہے اورجنت مشکلات اور دشواریوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "The (Hell) Fire is surrounded by all kinds of desires and passions, while Paradise is surrounded by all kinds of disliked undesirable things."