Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Superiority of the congregational Salat (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اسودسے جب جماعت فوت ہو جاتی تو آپ کسی دوسری مسجد میں تشریف لے جاتے ( جہاں نماز باجماعت ملنے کا امکان ہوتا ) اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک ایسی مسجد میں حاضر ہوئے جہاں نماز ہو چکی تھی۔ آپ نے پھر اذان دی، اقامت کہی اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔
655.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز باجماعت، اکیلے شخص کی نماز سے ستائیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔‘‘
تشریح:
(1) جس طرح ہماری اس مادی دنیا میں چیزوں کے خواص و اثرات میں درجات کا فرق ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی قدرو قیمت اور افادیت میں بھی فرق ہوجاتا ہے، اسی طرح ہمارے اعمال میں بھی درجات کا تفاوت ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک نماز باجماعت کی ادائیگی بھی ہے۔ اس کی فضیلت بایں الفاظ بیان کی گئی ہے کہ اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے میں اس کی فضیلت ستائیس درجے زیادہ ہے، یعنی اس کی پابندی کرنے والے کو ستائیس گنا زیادہ اجر ملتا ہے۔ اب صاحب ایمان کا مقام یہ ہے کہ وہ اس فضیلت پر دل وجان سے یقین رکھتے ہوئے ہر وقت کی نماز جماعت ہی سے پڑھنے کا اہتمام کرے۔ پھر نماز باجماعت پڑھنے والوں کے اخلاص و تقویٰ اور خشوع خضوع میں تفاوت کی وجہ سے ثواب میں بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، غالبا اگلی حدیث میں پچیس درجات کا ذکر اسی وجہ سے ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بلا وجہ جماعت کے بغیر اکیلے نماز پڑھنا صحیح ہے بلکہ واجب کی فضیلت غیر واجب کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ والله أعلم۔ (2) انفرادی نماز کے مقابلے میں اجتماعی نماز ستائیس درجے زیادہ فضیلت کی حامل اس لیے ہے کہ اس میں ایسی ستائیس خصلتیں پائی جاتی ہیں جن کی فضیلت کے متعلق الگ الگ احادیث مروی ہیں۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ نماز باجماعت ادا کرنے کی نیت سے اذان کا جواب دینا۔٭مسجد میں اول وقت پہنچنے کےلیے جلدی کرنا۔٭مسجد کی طرف سکون ووقار سے جانا۔٭دعا پڑھتے ہوئے مسجد میں داخل ہونا۔٭مسجد میں پہنچ کر تحیۃالمسجد ادا کرنا۔٭جماعت کا انتظار کرنا ۔٭ فرشتوں کا اس کےلیے دعائے رحمت کرنا۔٭فرشتوں کا اللہ کے ہاں پہنچ کر نمازی کے لیے گواہی دینا۔٭اقامت کا جواب دینا۔٭ اقامت کے وقت شیطانی وساوس سے محفوظ رہنا کیونکہ وہ اقامت کے وقت بھاگ جاتا ہے۔٭امام کی تکبیر تحریمہ کا انتظار کرنا۔٭تکبیر تحریمہ میں شمولیت کرنا۔٭صفوں کے شگاف بند کرتے ہوئے صف بندی کا اہتمام کرنا۔٭امام کی تسميع یعنی سمع الله لمن حمده کا جواب دینا۔ ٭سہوونسیان سے محفوظ رہنا۔اگر امام بھول جائے تو اسے سبحان اللہ کہہ کر آگاہ کرنا۔٭خشوع خضوع کی وجہ سے دوران نماز میں آنے والےخیالات سے محفوط رہنا۔٭نماز ادا کرتے وقت مطلوبہ شرعی زینت کا اہتمام کرنا۔٭ملائکۂ رحمت کا انھیں ڈاھانپ لینا ۔٭ارکان نماز اور بہترین قراءت سیکھنے کی مشق کرنا۔٭شعائر اسلام کا اظہار کرنا۔٭عبادت کےلیے جمع ہوکر شیطان کو ذلیل خوار کرنا۔ ٭صفتِ نفاق سے سلامت رہنا۔ ٭ امام کے ساتھ سلام کا جواب دینا۔ ٭اجتماعی طور پر ذکرو دعا میں مصروف ہونا۔ ٭پانچ وقت نطم جماعت کو برقرار رکھنا۔ ٭امام کی قراءت کو توجہ سے سننا۔ ٭آمین بالجہرکہنا۔ یہ ستائیس خصلتیں ایسی ہیں کہ انفرادی طور پر ان کی فضیلتیں احادیث میں بیان ہوئی ہیں،اور یہ تمام خصلتیں نماز باجماعت کے اہتمام میں اجتماعی طور پر پائی جاتی ہیں۔ (فتح الباري:174/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
640
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
645
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
645
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
645
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
یہ عنوان نماز باجماعت واجب ہونے کے مخالف نہیں کیونکہ اس میں نماز باجماعت ادا کرنے کی فضیلت کو ثابت کیا گیا ہے اور واجب ہمیشہ غیر واجب کے مقابلے میں اجرو ثواب کے اعتبار سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے، لہٰذا اس عنوان کے تحت پیش کردہ احادیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ منفرد کی نماز صحیح ہے، لہٰذا باجماعت نماز ضروری نہیں، بلکہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ نماز باجماعت کا ثواب اکیلے کی نماز سے زیادہ ہے۔(فتح الباری:2/171)والله اعلم۔ حضرت اسود رحمہ اللہ کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے (3/83) متصل سند سے بیان کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ اگر اپنی قوم کی مسجد میں نماز باجماعت فوت ہوجاتی تو باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے وہ کسی دوسری مسجد میں چلے جاتے۔(فتح الباری:2/171)حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اس اثر کو محدث ابو یعلی رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس میں وضاحت ہے کہ وہ مسجد بنی ثعلبہ میں گئے تو وہاں صبح کی جماعت ہوچکی تھی تو انھوں نے ایک آدمی کو اذان کہنے کا حکم دیا،پھر اقامت کہی گئی،اس کے بعد آپ نے جماعت کرائی۔(مسند ابی یعلٰی :7/315)امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہےکہ جماعت کی فضیلت مسجد میں نماز پڑھنے کی صورت میں ملے گی،گھر میں جماعت کرنے سے شاید یہ فضیلت حاصل نہ ہوسکے۔یہی وجہ ہےکہ حضرت اسود بن یزید اور حضرت انس رضی اللہ عنہ اس فضیلت کو حاصل کرنے کےلیے مسجد کا رخ کرتے تھے، گھر میں جماعت کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔(فتح الباری:2/171)
اسودسے جب جماعت فوت ہو جاتی تو آپ کسی دوسری مسجد میں تشریف لے جاتے ( جہاں نماز باجماعت ملنے کا امکان ہوتا ) اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک ایسی مسجد میں حاضر ہوئے جہاں نماز ہو چکی تھی۔ آپ نے پھر اذان دی، اقامت کہی اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز باجماعت، اکیلے شخص کی نماز سے ستائیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) جس طرح ہماری اس مادی دنیا میں چیزوں کے خواص و اثرات میں درجات کا فرق ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی قدرو قیمت اور افادیت میں بھی فرق ہوجاتا ہے، اسی طرح ہمارے اعمال میں بھی درجات کا تفاوت ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک نماز باجماعت کی ادائیگی بھی ہے۔ اس کی فضیلت بایں الفاظ بیان کی گئی ہے کہ اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے میں اس کی فضیلت ستائیس درجے زیادہ ہے، یعنی اس کی پابندی کرنے والے کو ستائیس گنا زیادہ اجر ملتا ہے۔ اب صاحب ایمان کا مقام یہ ہے کہ وہ اس فضیلت پر دل وجان سے یقین رکھتے ہوئے ہر وقت کی نماز جماعت ہی سے پڑھنے کا اہتمام کرے۔ پھر نماز باجماعت پڑھنے والوں کے اخلاص و تقویٰ اور خشوع خضوع میں تفاوت کی وجہ سے ثواب میں بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، غالبا اگلی حدیث میں پچیس درجات کا ذکر اسی وجہ سے ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بلا وجہ جماعت کے بغیر اکیلے نماز پڑھنا صحیح ہے بلکہ واجب کی فضیلت غیر واجب کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ والله أعلم۔ (2) انفرادی نماز کے مقابلے میں اجتماعی نماز ستائیس درجے زیادہ فضیلت کی حامل اس لیے ہے کہ اس میں ایسی ستائیس خصلتیں پائی جاتی ہیں جن کی فضیلت کے متعلق الگ الگ احادیث مروی ہیں۔ ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ نماز باجماعت ادا کرنے کی نیت سے اذان کا جواب دینا۔٭مسجد میں اول وقت پہنچنے کےلیے جلدی کرنا۔٭مسجد کی طرف سکون ووقار سے جانا۔٭دعا پڑھتے ہوئے مسجد میں داخل ہونا۔٭مسجد میں پہنچ کر تحیۃالمسجد ادا کرنا۔٭جماعت کا انتظار کرنا ۔٭ فرشتوں کا اس کےلیے دعائے رحمت کرنا۔٭فرشتوں کا اللہ کے ہاں پہنچ کر نمازی کے لیے گواہی دینا۔٭اقامت کا جواب دینا۔٭ اقامت کے وقت شیطانی وساوس سے محفوظ رہنا کیونکہ وہ اقامت کے وقت بھاگ جاتا ہے۔٭امام کی تکبیر تحریمہ کا انتظار کرنا۔٭تکبیر تحریمہ میں شمولیت کرنا۔٭صفوں کے شگاف بند کرتے ہوئے صف بندی کا اہتمام کرنا۔٭امام کی تسميع یعنی سمع الله لمن حمده کا جواب دینا۔ ٭سہوونسیان سے محفوظ رہنا۔اگر امام بھول جائے تو اسے سبحان اللہ کہہ کر آگاہ کرنا۔٭خشوع خضوع کی وجہ سے دوران نماز میں آنے والےخیالات سے محفوط رہنا۔٭نماز ادا کرتے وقت مطلوبہ شرعی زینت کا اہتمام کرنا۔٭ملائکۂ رحمت کا انھیں ڈاھانپ لینا ۔٭ارکان نماز اور بہترین قراءت سیکھنے کی مشق کرنا۔٭شعائر اسلام کا اظہار کرنا۔٭عبادت کےلیے جمع ہوکر شیطان کو ذلیل خوار کرنا۔ ٭صفتِ نفاق سے سلامت رہنا۔ ٭ امام کے ساتھ سلام کا جواب دینا۔ ٭اجتماعی طور پر ذکرو دعا میں مصروف ہونا۔ ٭پانچ وقت نطم جماعت کو برقرار رکھنا۔ ٭امام کی قراءت کو توجہ سے سننا۔ ٭آمین بالجہرکہنا۔ یہ ستائیس خصلتیں ایسی ہیں کہ انفرادی طور پر ان کی فضیلتیں احادیث میں بیان ہوئی ہیں،اور یہ تمام خصلتیں نماز باجماعت کے اہتمام میں اجتماعی طور پر پائی جاتی ہیں۔ (فتح الباري:174/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت اسود بن یزید کی اگر نماز باجماعت فوت ہو جاتی تو وہ دوسری مسجد میں جاتے۔
حضرت انس ؓ ایک مسجد میں آئے جس میں نماز ہو چکی تھی تو انہوں نے وہاں اذان دی، پھر اقامت کہہ کر نماز باجماعت ادا فرمائی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انھوں نے نافع سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جماعت کے ساتھ نماز اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "The prayer in congregation is twenty seven times superior to the prayer offered by person alone."