تشریح:
(1) قبیلۂ بنو سلمہ کے مکانات سلع پہاڑ کے پاس مسجد نبوی سے تقریباً ایک میل کی مسافت پر تھے جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کا بیان ہے کہ ہمارے گھر مسجد نبوی سے دور تھے۔ ہم نے ارادہ کیا کہ انھیں فروخت کرکے مسجد کے قریب اپنے گھر تعمیر کریں تاکہ نماز کے لیے آنے جانے میں سہولت ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اس اقدام سے روک دیا اور فرمایا کہ تمھارے لیے ہر قدم کے عوض ایک درجہ بلند ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس لیے منع فرمایا کہ ایسا کرنے سے مدینہ منورہ کی سرحدیں غیر محفوظ ہونے کا اندیشہ تھا۔ اور قدموں کے بدلے نیکیاں ملنے کا ایک اضافی فائدہ تھا جس سے رسول اللہ ﷺ نے انھیں آگاہ فرما دیا، چنانچہ انھوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا اور طے کیا کہ اس جگہ کو چھوڑ کر مسجد کے قریب آباد نہیں ہوں گے۔ (فتح الباري:183/2)
(2) امام مجاہد کے اثر کو محدث عبد بن حمید نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے یہ اثر پیش کر کے اشارہ فرمایا ہے کہ بنو سلمہ کا مذکورہ واقعہ ہی ان آیات کا شان نزول ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے صراحت کی ہے۔(سنن ابن ماجة، المساجد والجماعات، حدیث :785)
(3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی جتنی دور سے چل کر نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے آئے گا، اسی قدر زیادہ اجر و ثواب سے نوازا جائے گا، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک انصاری دور سے چل کر مسجد نبوی میں شریک جماعت ہوتا تھا، کسی نے اسے مشورہ دیا کہ تم کوئی سواری خرید لو تاکہ آنے جانے میں سہولت رہے۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے پیدل چل کر آنے سے قدموں کے بدلے اللہ کے ہاں ثواب ملنے کی امید ہے۔ جب اس بات کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ہوا تو آپ نے فرمایا:’’تیری نیت کے مطابق تجھے ضرور ثواب ملے گا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، المساجد والجماعات، حدیث:783) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ مسجد کے قریب رہنے والا نمازی اگر چھوٹے چھوٹے قدم بھر کر مسجد آتا ہے تو اجرو ثواب کے اعتبار سے وہ دور سے چل کر آنے والے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ (فتح الباري:183/2)