باب: جو اللہ سے ملاقات کو پسند رکھتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند رکھتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Whoever loves to meet Allah, Allah loves to meet him)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6567.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول ﷺ جب تندرست تھے تو فرمایا کرتے تھے: ”کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی جاتی جب تک وہ جنت میں اپنا ٹھکانا نہیں دیکھ لیتے، پھر انہیں اختیار دیا جاتا ہے۔“ پھر جب آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا تو آپ پر کچھ وقت غشی آئی، پھر جب ہوش آیا تو آپ چھت کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنے لگے، پھر فرمایا: ”اے اللہ! میں رفیق اعلیٰ کو اختیار کرتا ہوں۔“ میں نے اس وقت (دل میں) کیا: اب ہمیں اختیار نہیں کریں گے اور مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ وہی حدیث ہے جو آپ ہمیں بیان فرمایا کرتے تھے۔ یہ آخری کلمہ تھا جو نبی ﷺ نے اپنی زبان سے ادا کیا: ”اے اللہ! میں رفیق اعلٰی کو اختیار کرتا ہوں۔“
تشریح:
(1) رفیق اعلیٰ سے مراد جنتی، یعنی حضرات انبیاء علیہم السلام، شہداء اور صالحین کی جماعت ہے جیسا کہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر درج ذیل آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ’’ان حضرات کی رفاقت جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔‘‘(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4435، والنساء، 69) (2) اس حدیث کی عنوان سے اس طرح مطابقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب موت و حیات کا اختیار دیا گیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند فرمایا اور موت کو اختیار کیا، ہمیں بھی ایسے حالات میں رفیق اعلیٰ کو اختیار کرنا چاہیے۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بعض شارحین کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتہ روح قبض کر لینے کے لیے آیا تو انہوں نے کہا: ’’کیا تو نے کبھی دیکھا ہے کہ کوئی دوست اپنے دوست کو جان سے مار دے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے سے یہ پیغام دیا: ’’کیا کوئی دوست اپنے دوست سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے؟‘‘ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ملک الموت سے فرمایا: ’’اب میری روح قبض کر لو۔‘‘ (فتح الباري: 349/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6280
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6509
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6509
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6509
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
بندے کا اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند کرنا، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا پر آخرت کو پسند کرتا ہے، اب اسے دنیا میں رہنا پسند نہیں بلکہ یہاں سے کوچ کی تیاری کرنا ہے۔ یہ انسان کے لیے خوش بختی کی علامت ہے کہ نزع کے وقت اس پر اللہ تعالیٰ سے ملنے کا شوق غالب ہو اور اسے ترک دنیا کی کوئی فکر لاحق نہ ہو۔
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول ﷺ جب تندرست تھے تو فرمایا کرتے تھے: ”کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی جاتی جب تک وہ جنت میں اپنا ٹھکانا نہیں دیکھ لیتے، پھر انہیں اختیار دیا جاتا ہے۔“ پھر جب آپ کا سر مبارک میری ران پر تھا تو آپ پر کچھ وقت غشی آئی، پھر جب ہوش آیا تو آپ چھت کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنے لگے، پھر فرمایا: ”اے اللہ! میں رفیق اعلیٰ کو اختیار کرتا ہوں۔“ میں نے اس وقت (دل میں) کیا: اب ہمیں اختیار نہیں کریں گے اور مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ وہی حدیث ہے جو آپ ہمیں بیان فرمایا کرتے تھے۔ یہ آخری کلمہ تھا جو نبی ﷺ نے اپنی زبان سے ادا کیا: ”اے اللہ! میں رفیق اعلٰی کو اختیار کرتا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) رفیق اعلیٰ سے مراد جنتی، یعنی حضرات انبیاء علیہم السلام، شہداء اور صالحین کی جماعت ہے جیسا کہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر درج ذیل آیت کریمہ تلاوت فرمائی: ’’ان حضرات کی رفاقت جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اور رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔‘‘(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4435، والنساء، 69) (2) اس حدیث کی عنوان سے اس طرح مطابقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب موت و حیات کا اختیار دیا گیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند فرمایا اور موت کو اختیار کیا، ہمیں بھی ایسے حالات میں رفیق اعلیٰ کو اختیار کرنا چاہیے۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بعض شارحین کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتہ روح قبض کر لینے کے لیے آیا تو انہوں نے کہا: ’’کیا تو نے کبھی دیکھا ہے کہ کوئی دوست اپنے دوست کو جان سے مار دے؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرشتے کے ذریعے سے یہ پیغام دیا: ’’کیا کوئی دوست اپنے دوست سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے؟‘‘ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ملک الموت سے فرمایا: ’’اب میری روح قبض کر لو۔‘‘ (فتح الباري: 349/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل بن خالد نے، ان سے ابن شہاب نے، کہا مجھ کو سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر نے چند علم والوں کے سامنے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے جب آپ خاصے تندرست تھے فرمایا تھا کسی نبی کی اس وقت تک روح قبض نہیں کی جاتی جب تک جنت میں اس کے رہنے کی جگہ اسے دکھا نہ دی جاتی ہو اور پھر اسے (دنیا یا آخرت کے لئے) اختیار دیا جاتا ہے۔ پھر جب آنحضرت ﷺ بیمار ہوئے اور آنحضرت ﷺ کا سرمبارک میری ران پر تھا تو آپ پر تھوڑی دیر کے لئے غشی چھا گئی، پھر جب آپ کو ہوش آیا تو آپ چھت کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنے لگے۔ پھر فرمایا ''اللهم الرفیق الأعلی'' میں نے کہا کہ اب آنحضرت ﷺ ہمیں ترجیح نہیں دے سکتے اور میں سمجھ گئی کہ یہ وہی حدیث ہے جو حضور نے ایک مرتبہ ارشاد فرمائی تھی۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ آنحضرت ﷺ کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے اپنی زبان مبارک سے اد ا فرمایا یعنی یہ ارشاد کہ ''اللهم الرفیق الأعلی'' یعنی یا اللہ! مجھ کو بلند رفیقوں کا ساتھ پسند ہے۔
حدیث حاشیہ:
مراد باشندگان جنت انبیاء ومرسلین وصالحین وملائکہ ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو نیک لوگوں صالحین کی صحبت عطافرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : (the wife of the Prophet) When Allah's Apostle (ﷺ) was in good health, he used to say, "No prophet's soul is ever captured unless he is shown his place in Paradise and given the option (to die or survive)." So when the death of the Prophet (ﷺ) approached and his head was on my thigh, he became unconscious for a while and then he came to his senses and fixed his eyes on the ceiling and said, "O Allah (with) the highest companions." (See Qur'an 4:69). I said' "Hence he is not going to choose us." And I came to know that it was the application of the narration which he (the Prophet) used to narrate to us. And that was the last statement of the Prophet (ﷺ) (before his death) i.e., "O Allah! With the highest companions." (See Qur'an 4:69)