Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The stupors of death)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6571.
حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”(یہ مرنے والا یا تو) خود آرام پانے والا ہے یا دوسرے بندوں کو آرام دینے والا ہے مومن تو ہر صورت میں آرام ہی پاتا ہے۔“
تشریح:
اس حدیث کے پیش نظر ہر مرنے والا دو حالتوں میں سے ایک کا ضرور سامنا کرتا ہے یا وہ خود آرام پانے والا ہے یا دوسروں کو اس سے آرام ملتا ہے۔ ہر حالت میں اس پر موت کے وقت سختی بھی کی جا سکتی ہے اور اس پر نرمی کا بھی امکان ہے۔ پہلی صورت میں اسے موت کی سختیوں سے پالا پڑتا ہے۔ موت کی شدت کا تعلق انسان کی پرہیزگاری یا بدکاری سے نہیں ہوتا بلکہ اگر وہ شخص اہل تقویٰ سے ہے تو اس کے درجات بلند ہوتے ہیں اور اگر مومن اہل تقویٰ نہیں تو اس کی برائیوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ پھر وہ دنیا کی اذیتوں اور تکلیفوں سے نجات پا جاتا ہے۔ موت کی سختی کے باوجود مومن کو فرشتوں کی بشارت سے اس قدر راحت ملتی ہے کہ اس کے مقابلے میں موت کی سختی کا کچھ وزن نہیں ہوتا، گویا مومن اس قسم کی سختی کو محسوس ہی نہیں کرتا۔ (فتح الباري: 444/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6284
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6513
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6513
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6513
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
سكرات، سكرة کی جمع ہے، اس سے مراد درد کی وجہ سے بے ہوش ہو جانا ہے اگرچہ اکثر طور پر یہ لفظ نشے کی وجہ سے ہونے والی بے ہوشی پر بولا جاتا ہے۔
حضرت قتادہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”(یہ مرنے والا یا تو) خود آرام پانے والا ہے یا دوسرے بندوں کو آرام دینے والا ہے مومن تو ہر صورت میں آرام ہی پاتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے پیش نظر ہر مرنے والا دو حالتوں میں سے ایک کا ضرور سامنا کرتا ہے یا وہ خود آرام پانے والا ہے یا دوسروں کو اس سے آرام ملتا ہے۔ ہر حالت میں اس پر موت کے وقت سختی بھی کی جا سکتی ہے اور اس پر نرمی کا بھی امکان ہے۔ پہلی صورت میں اسے موت کی سختیوں سے پالا پڑتا ہے۔ موت کی شدت کا تعلق انسان کی پرہیزگاری یا بدکاری سے نہیں ہوتا بلکہ اگر وہ شخص اہل تقویٰ سے ہے تو اس کے درجات بلند ہوتے ہیں اور اگر مومن اہل تقویٰ نہیں تو اس کی برائیوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ پھر وہ دنیا کی اذیتوں اور تکلیفوں سے نجات پا جاتا ہے۔ موت کی سختی کے باوجود مومن کو فرشتوں کی بشارت سے اس قدر راحت ملتی ہے کہ اس کے مقابلے میں موت کی سختی کا کچھ وزن نہیں ہوتا، گویا مومن اس قسم کی سختی کو محسوس ہی نہیں کرتا۔ (فتح الباري: 444/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبد ربہ بن سعید نے، ان سے محمد بن عمر نے بیان کیا، ان سے طلحہ بن کعب نے بیان کیا، ان سے ابو قتادہ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ مرنے والا يا تو آرام پانے والا ہے یا دوسرے بندوں کو آرام دینے والا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ایماندار بندہ تو آرام ہی پاتا ہے۔ جعلنا اللہ منهم۔ آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Qatada (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Relieved or relieving. And a believer is relieved (by death)."