Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The stupors of death)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6574.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو لوگ مر گئے ہیں انہیں برا بھلا نہ کہو کیونکہ انہوں نے جو کچھ اپنے آگے بھیجا تھا اس کے پاس وہ خود پہنچ چکے ہیں۔“
تشریح:
(1) مرنے والوں نے جو برے بھلے عمل کیے تھے، اس کے مطابق بدلہ پا لیا ہے، اب انہیں برا بھلا کہنے سے کیا فائدہ حاصل ہو گا۔ (2) مرنے کے بعد دفن سے پہلے پہلے کسی مصلحت کے پیش نظر مرنے والے کی کوئی اخلاقی کمزوری بیان کی جا سکتی ہے لیکن جب دفن کر دیا جائے تو اس کے متعلق لب کشائی نہیں کرنی چاہیے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے یزید بن قیس الارجی کو برا بھلا کہا لیکن جب انہیں اس کی موت کا پتا چلا تو انہوں نے أستغفراللہ پڑھا اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مرنے والوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ (فتح الباري: 383/3) (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس لیے ذکر کیا ہے کہ یہ ان مرنے والوں کے متعلق ہے جو سکرات موت سے دوچار ہوئے ہیں۔ (عمدة القاري: 589/15)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6287
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6516
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6516
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6516
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
سكرات، سكرة کی جمع ہے، اس سے مراد درد کی وجہ سے بے ہوش ہو جانا ہے اگرچہ اکثر طور پر یہ لفظ نشے کی وجہ سے ہونے والی بے ہوشی پر بولا جاتا ہے۔
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو لوگ مر گئے ہیں انہیں برا بھلا نہ کہو کیونکہ انہوں نے جو کچھ اپنے آگے بھیجا تھا اس کے پاس وہ خود پہنچ چکے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مرنے والوں نے جو برے بھلے عمل کیے تھے، اس کے مطابق بدلہ پا لیا ہے، اب انہیں برا بھلا کہنے سے کیا فائدہ حاصل ہو گا۔ (2) مرنے کے بعد دفن سے پہلے پہلے کسی مصلحت کے پیش نظر مرنے والے کی کوئی اخلاقی کمزوری بیان کی جا سکتی ہے لیکن جب دفن کر دیا جائے تو اس کے متعلق لب کشائی نہیں کرنی چاہیے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے یزید بن قیس الارجی کو برا بھلا کہا لیکن جب انہیں اس کی موت کا پتا چلا تو انہوں نے أستغفراللہ پڑھا اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مرنے والوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ (فتح الباري: 383/3) (3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس لیے ذکر کیا ہے کہ یہ ان مرنے والوں کے متعلق ہے جو سکرات موت سے دوچار ہوئے ہیں۔ (عمدة القاري: 589/15)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ بن حجاج نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں مجاہد نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو لوگ مر گئے ان کو برا نہ کہو کیونکہ جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا تھا اس کے پاس وہ خود پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے برے بھلے جو بھی عمل کئے تھے ویسا بدلہ پا لیا۔
حدیث حاشیہ:
اب برا کہنے سے کیا فائدہ۔ لوگ ان مردوں کو برا کہا کرتے تھے جو موت کے وقت بہت سختی اٹھاتے تھے جو ہونا تھا ہوا اب برا کہنے کی ضرورت نہیں ہے ہاں جو برے ہیں وہ برے ہی رہیں گے، کفار مشرکین وغیرہ وغیرہ جن کے لئے خلود فی النار کا فیصلہ قطعی ہے۔ حدیث میں یہ بھی ارشاد ہے کہ مرنے کے بعد برے لوگوں کو بھی گالی گلوچ سے یاد کرنا نہیں چاہیئے کیونکہ وہ کئے عملوں کا بدلہ پا چکے ہیں۔ سبحان اللہ کیا پاکیزہ تعلیم ہے۔ اللہ عمل کی توفیق دے آمین۔ خاتمہ: الحمد للہ والمنة کہ آج بخاری شریف ترجمہ اردو کے پارہ نمبر26 کی تسوید سے فراغت حاصل ہو رہی ہے یہ پارہ کتاب الاستیذان کتاب الدعوات اور کتاب الرقاق پر مشتمل ہے جس میں تہذیب واخلاق اوردعاؤں اور پندونصائح کی بہت سی قیمتی باتیں جناب فخر بنی آدم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بیان میں آئی ہیں جن کے بغورمطالعہ کرنے اور جن پر عمل پیرا ہونے سے دین ودنیا کی بے شمار سعادتیں حاصل ہو سکتی ہیں۔ اس پارے کی تسوید پر بھی مثل سابق بہت سا قیمتی وقت صرف کیا گیا ہے۔ متن وترجمہ وتشریحات کے لفظ لفظ کو بہت ہی غور وخوض کے بعد حوالہ قلم کیا گیا ہے اور سفر وحضر ورنج وراحت وحوادث کثیرہ وامراض قلبی کے باوجود نہایت ہی ذمہ داری کے ساتھ اس عظیم خدمت کو انجام دیا گیا ہے پھر بھی بہت سی خامیوں کا امکان ہے اس لئے ماہرین فن سے با ادب چشم عفو سے کام لینے کے لئے امید وار ہوں اگر واقعی لغزشوں کے لئے اہل علم حضرات میری حیات مستعار میں مطلع فرمائیں گے تو بصد شکریہ طبع ثانی کے موقع پر اصلاح کر دی جائے گی اورمیرے دنیا سے چلے جانے کے بعد اگر ویسے اغلاط کو معلوم فرمانے والے بھائی اپنی قلم سے درستگی فرما لیں گے اور مجھ کو دعائے خیر سے یاد کریں گے تو میں بھی ان کا پیشگی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یاللہ! حیات مستعار بہت تیزی کے ساتھ خاتمہ کی طرف جا رہی ہے جس طرح یہاں تک تونے مجھے پہنچایا ہے اسی طرح بقایا خدمت کو بھی پورا کرنے کی توفیق عطا فرما اور اس خدمت کو نہ صرف میرے لئے بلکہ میرے والدین اور اولاد اور جملہ معاونین کرام وقدردانان عظام کے حق میں قبول فرما کر بطور ایصال ثواب اس عظیم نیکی کو قبول عام اور حیات دوام عطا فرمائیو آمین۔ ربنا تقبل منا إنك أنت السمیع العلیم وتب علینا إنك أنت التواب الرحیم و صلی اللہ علی خیر خلقه محمد وعلی آله وأصحابه أجمعین برحمتك یا أرحم الراحمین آمین۔ خادم محمد داؤد راز السلفی ساکن موضع رہپوہ۔ نزد قصبہ پنگواں ضلع گوڑگاؤں ہریانہ بھارت۔ (10جمادی الثانی 1396ھ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Do not abuse the dead, for they have reached the result of what they have done."