تشریح:
(1) مذکورہ عنوان حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ایک حدیث ہے جسے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں بیان کیا ہے۔ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث:972) امام بخاری ؒ کا یہ اصول ہے کہ اگر کوئی حدیث باعتبار لفظ ان کی شرط کے مطابق نہ ہو لیکن باعتبار معنی وہ صحیح ہو تو دیگر روایات سے اس کی تائید کرتے ہیں۔ آپ نے اسی اصول کے پیش نظر سنن ابن ماجہ کی حدیث کو عنوان قرار دیا ہے اور اپنی پیش کردہ روایت سے اس کے مضمون کو ثابت کیا ہے کہ جماعت کا اطلاق اگرچہ کم از کم تین پر ہوتا ہے مگر نماز میں دو پر بھی جماعت کا اطلاق ہوسکتا ہے، یعنی اگر دو آدمی باجماعت نماز ادا کریں تو بھی انھیں پوری جماعت کا ثواب ملے گا۔
(2) امام بخاری کےاستدلال پر اعتراض کیا گیا ہے کہ حضرت مالک بن حویرث ؓ کے ہمراہ تو ان کے دیگر ساتھی بھی تھے۔ روایت میں صرف دو کا ذکر تصرف رواۃ معلوم ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ یہ دو مختلف واقعات ہیں: ایک دفعہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ آئے تھے اور دوسری دفعہ وہ اپنے ساتھی کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ یہ بھی واضح رہے کہ جماعت کم از کم امام اور ماموم(مقتدی) پر مشتمل ہوتی ہے، خواہ ماموم آدمی یا بچہ یا عورت ہو۔ (فتح الباري:185/2)
(3) علم کے اعتبار سے وہ دونوں برابر تھے، اس لیے اذان اور تکبیر کے متعلق بلا تفریق کسی ایک کو یہ فریضہ سرانجام دینے کا حکم دیا لیکن امامت میں بڑی عمر والے کا لحاظ رکھا گیا ہے کیونکہ اگر نمازی علم وفضل میں برابر ہوں تو جماعت کے لیے بڑی عمر والے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔