Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The gathering (on the Day of Resurrection))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6581.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا: اللہ کے رسول! کافر کا چہرے کے بل کیسے حشر کیا جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا وہ ذات جس نے اسے دنیا میں دونوں پاؤں پر چلایا ہے اسے قدرت نہیں کہ اسے قیامت کے دن چہرے کے بل چلا دے۔ ؟۔“ (راوی حدیث) قتادہ نے کہا: کیوں نہیں ہمارے رب کی عزت و آبرو کی قسم! وہ منہ کے بل چلا سکتا ہے۔
تشریح:
(1) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’قیامت کے دن ہم ان (کافروں) کو اوندھے منہ، گونگے اور بہرے بنا کر اٹھائیں گے۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘(بني إسرائیل: 97/17) اس آیت کے پیش نظر صحابی نے سوال کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب دیا۔ (2) بہرحال قانون جزا و سزا اور اعمال انسان میں مماثلت پائی جاتی ہے، جیسے کوئی شخص دنیا میں اللہ تعالیٰ کو بھولا رہا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے بھلا دے گا، جس نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے آنکھیں بند کر لیں، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اندھا کر کے اٹھائے گا۔ اسی طرح کافر جب دنیا میں اللہ کو سجدہ نہیں کرتا تھا تو اس کی ذلت و رسوائی کو ظاہر کرنے کے لیے قیامت کے دن اسے منہ کے بل چلایا جائے گا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حکمت کو بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 465/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6294
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6523
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6523
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6523
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حشر کی چار قسمیں ہیں: دو کا تعلق عالم دنیا سے ہے جبکہ دو آخرت میں ہوں گے۔ جو حشر دنیا میں ہوں گے۔ ان میں پہلا حشر سورۂ حشر میں بیان ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے پہلے ہی حملے میں اہل کتاب کافروں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔'' (الحشر: 59/2) دوسرا حشر اس وقت ہو گا جب قرب قیامت میں مشرق سے آگ برآمد ہو گی جو لوگوں کو مغرب کی طرف لے جائے گی جس کا ذکر آئندہ احادیث میں آئے گا۔ جو دو حشر عالم آخرت میں ہوں گے ان میں سے پہلا حشر اس وقت ہو گا جب مُردوں کو قبروں سے زندہ کر کے حساب کتاب کے لیے میدان محشر میں پیش کیا جائے گا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے: ''ہم لوگوں کو جمع کریں گے اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔'' (الکھف: 18/47) آخری حشر اس وقت ہو گا جب فرشتے اہل جنت کو جنت میں اور اہل جہنم کو دوزخ میں لے جائیں گے اس کا ذکر سورۂ زمر آیت: 71-73 میں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان میں پہلا حشر کوئی مستقل چیز نہیں بلکہ اس قسم کا حشر کئی مرتبہ مختلف قوموں اور لوگوں کے متعلق ہوا ہے۔ (فتح الباری: 11/460)
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا: اللہ کے رسول! کافر کا چہرے کے بل کیسے حشر کیا جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا وہ ذات جس نے اسے دنیا میں دونوں پاؤں پر چلایا ہے اسے قدرت نہیں کہ اسے قیامت کے دن چہرے کے بل چلا دے۔ ؟۔“ (راوی حدیث) قتادہ نے کہا: کیوں نہیں ہمارے رب کی عزت و آبرو کی قسم! وہ منہ کے بل چلا سکتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’قیامت کے دن ہم ان (کافروں) کو اوندھے منہ، گونگے اور بہرے بنا کر اٹھائیں گے۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘(بني إسرائیل: 97/17) اس آیت کے پیش نظر صحابی نے سوال کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب دیا۔ (2) بہرحال قانون جزا و سزا اور اعمال انسان میں مماثلت پائی جاتی ہے، جیسے کوئی شخص دنیا میں اللہ تعالیٰ کو بھولا رہا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے بھلا دے گا، جس نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے آنکھیں بند کر لیں، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اندھا کر کے اٹھائے گا۔ اسی طرح کافر جب دنیا میں اللہ کو سجدہ نہیں کرتا تھا تو اس کی ذلت و رسوائی کو ظاہر کرنے کے لیے قیامت کے دن اسے منہ کے بل چلایا جائے گا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حکمت کو بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 465/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمدنے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن محمد بغدادی نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نحوی نے بیان کیا، کہا ان سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ ایک صحابی نے کہا، اے اللہ کے نبی! قیامت میں کافروں کو ان کے چہرے کے بل کس طرح حشر کیا جائے گا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ ذات جس نے انہیں دنیا میں دو پاؤں پر چلایا اسے اس پر قدرت نہیں ہے کہ قیامت کے دن انہیں چہرے کے بل چلا دے۔ قتادہ ؓ نے کہا کہ ضرور ہے ہمارے رب کی عزت کی قسم۔ بے شک وہ منہ کے بل چلا سکتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): A man said, "O Allah's Prophet! Will a Kafir (disbeliever) be gathered (driven prone) on his face?" The Prophet (ﷺ) said, "Is not He Who made him walk with his legs in this world, able to make him walk on his face on the Day of Resurrection?" (Qatada, a sub-narrator said: Yes, (He can), by the Power of Our Lord!")