Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The gathering (on the Day of Resurrection))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6584.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ہمیں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: یقیناً تم لوگ برہنہ پاؤں، برہنہ تن اور غیر مختون اٹھاؤ جاؤ گے۔ جس طرح ہم نے تمہیں پہلے پیدا کیا تھا اسی طرح تمہیں لوٹائیں گے۔ قیامت کے دن تمام مخلوقات میں سب سے پہلے پوشاک پہنائی جائے گی وہ ابراہیم خلیل اللہ ہوں گے۔ اس دوران میں میری امت میں سے کچھ لوگوں کو جن کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں ہوں گے گرفتار کر کے لایا جائے گا، میں کہوں گا: اے میرے رب: یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا۔ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا بدعات نکالی تھیں اس وقت میں بھی وہی کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے نے کہا تھا: ”اے اللہ! جب تک میں ان میں موجود رہا میں ان کا نگہبان تھا۔ مجھے کہا جائے گا: یہ لوگ ہمیشہ اپنی ایڑیوں کے بل پھرتے ہی رہے (مرتد ہوتے رہے)۔“
تشریح:
(1) اس حدیث میں مرتدین کا ذکر ہے، جن سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جہاد کیا جیسا کہ ایک روایت میں حضرت قبیصہ نے اس کی وضاحت کی ہے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3447) یا اس سے دیہاتیوں کی وہ جماعت مراد ہے جو ابھی تک تہذیب و اخلاق سے مزین نہ ہوئے تھے اور نہ اسلام ان کے دلوں میں داخل ہی ہوا تھا۔ بعض اہل علم نے منافقین کی جماعت مراد لی ہے جو اسلام کی حقانیت کے پیش نظر نہیں بلکہ دنیوی لالچ اور مفاد پرستی کی خاطر دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی صحیح صورت حال واضح ہوئی تو آپ نے بھی ان کے متعلق کسی قسم کا نرم گوشہ نہیں رکھا بلکہ فرمایا: ’’تباہی اور بربادی ہو اس انسان کے لیے جس نے میرے بعد میرے دین کو بدل کر رکھ دیا۔‘‘ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7051) (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے قیامت کے دن لوگوں کے اٹھائے جانے کی کیفیت کو بیان کیا ہے کہ وہ بالکل برہنہ حالت میں، یعنی ننگے بدن اٹھائے جائیں گے جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر قرآن پاک کی آیت تلاوت کر کے ہمیں آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ سب اپنی قبروں سے ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر ختنہ شدہ اٹھیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ سچا ہے اور وہ ایسا کر کے رہے گا۔ اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6297
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6526
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6526
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6526
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حشر کی چار قسمیں ہیں: دو کا تعلق عالم دنیا سے ہے جبکہ دو آخرت میں ہوں گے۔ جو حشر دنیا میں ہوں گے۔ ان میں پہلا حشر سورۂ حشر میں بیان ہوا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے پہلے ہی حملے میں اہل کتاب کافروں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔'' (الحشر: 59/2) دوسرا حشر اس وقت ہو گا جب قرب قیامت میں مشرق سے آگ برآمد ہو گی جو لوگوں کو مغرب کی طرف لے جائے گی جس کا ذکر آئندہ احادیث میں آئے گا۔ جو دو حشر عالم آخرت میں ہوں گے ان میں سے پہلا حشر اس وقت ہو گا جب مُردوں کو قبروں سے زندہ کر کے حساب کتاب کے لیے میدان محشر میں پیش کیا جائے گا جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے: ''ہم لوگوں کو جمع کریں گے اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔'' (الکھف: 18/47) آخری حشر اس وقت ہو گا جب فرشتے اہل جنت کو جنت میں اور اہل جہنم کو دوزخ میں لے جائیں گے اس کا ذکر سورۂ زمر آیت: 71-73 میں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ان میں پہلا حشر کوئی مستقل چیز نہیں بلکہ اس قسم کا حشر کئی مرتبہ مختلف قوموں اور لوگوں کے متعلق ہوا ہے۔ (فتح الباری: 11/460)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ہمیں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: یقیناً تم لوگ برہنہ پاؤں، برہنہ تن اور غیر مختون اٹھاؤ جاؤ گے۔ جس طرح ہم نے تمہیں پہلے پیدا کیا تھا اسی طرح تمہیں لوٹائیں گے۔ قیامت کے دن تمام مخلوقات میں سب سے پہلے پوشاک پہنائی جائے گی وہ ابراہیم خلیل اللہ ہوں گے۔ اس دوران میں میری امت میں سے کچھ لوگوں کو جن کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں ہوں گے گرفتار کر کے لایا جائے گا، میں کہوں گا: اے میرے رب: یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا۔ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا بدعات نکالی تھیں اس وقت میں بھی وہی کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے نے کہا تھا: ”اے اللہ! جب تک میں ان میں موجود رہا میں ان کا نگہبان تھا۔ مجھے کہا جائے گا: یہ لوگ ہمیشہ اپنی ایڑیوں کے بل پھرتے ہی رہے (مرتد ہوتے رہے)۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں مرتدین کا ذکر ہے، جن سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جہاد کیا جیسا کہ ایک روایت میں حضرت قبیصہ نے اس کی وضاحت کی ہے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3447) یا اس سے دیہاتیوں کی وہ جماعت مراد ہے جو ابھی تک تہذیب و اخلاق سے مزین نہ ہوئے تھے اور نہ اسلام ان کے دلوں میں داخل ہی ہوا تھا۔ بعض اہل علم نے منافقین کی جماعت مراد لی ہے جو اسلام کی حقانیت کے پیش نظر نہیں بلکہ دنیوی لالچ اور مفاد پرستی کی خاطر دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کی صحیح صورت حال واضح ہوئی تو آپ نے بھی ان کے متعلق کسی قسم کا نرم گوشہ نہیں رکھا بلکہ فرمایا: ’’تباہی اور بربادی ہو اس انسان کے لیے جس نے میرے بعد میرے دین کو بدل کر رکھ دیا۔‘‘ (صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7051) (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے قیامت کے دن لوگوں کے اٹھائے جانے کی کیفیت کو بیان کیا ہے کہ وہ بالکل برہنہ حالت میں، یعنی ننگے بدن اٹھائے جائیں گے جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر قرآن پاک کی آیت تلاوت کر کے ہمیں آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ سب اپنی قبروں سے ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر ختنہ شدہ اٹھیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ سچا ہے اور وہ ایسا کر کے رہے گا۔ اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن نعمان نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ہمیں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا، تم لوگ قیامت کے دن اس حال میں جمع کئے جاؤ گے کہ ننگے پاؤں اور ننگے جسم ہوگے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”جس طرح ہم نے شروع میں پیدا کیا تھا اسی طرح لوٹا دیں گے۔“ اور تمام مخلوقات میں سب سے پہلے جسے کپڑا پہنایا جائے گا وہ ابراہیم ؑ ہوں گے اور میری امت کے بہت سے لوگ لائے جائیں گے جن کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں ہوں گے۔ میں اس پر کہوں گا اے میرے رب! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی نئی بدعات نکالی تھیں۔ اس وقت میں بھی وہی کہوں گا جو نیک بندے (عیسیٰؑ) نے کہا کہ یا اللہ! میں جب تک ان میں موجود رہا اس وقت تک میں ان پر گواہ تھا۔ (المائدہ: ۷۱۱۔ ۸۱۱) رسول اللہ ﷺ نے بیان کیا کہ فرشتے (مجھ سے) کہیں گے کہ یہ لوگ ہمیشہ اپنی ایڑیوں کے بل پھرتے ہی رہے۔ (مرتد ہوتے رہے)
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں مرتدین لوگ مراد ہیں جن سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جہاد کے لیے کمر باندھی تھی اور وہ لوگ بھی مردا ہیں جنہوں نے اسلام میں بدعات کا طومار بپا کر کے دین حق کا حلیہ بگاڑ دیا۔ آج کل قبروں اور بزرگوں کے مزارات پر ایسے لوگ بکثرت دیکھے جا سکتے ہیں جن کے لیے کہا گیا ہے۔ شکوہ جفائے وفا نما جو حرم کو اہل حرم سے ہے اگر بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اے اللہ! میں جب تک ان میں موجود رہا اس وقت تک میں ان پر گواہ تھا۔ پھر جب کہ تونے خود مجھے لے لیا پھر تو تو ہی ان پر نگہبان تھا اور تو تو ہر چیز سے پورا باخبر ہے اگر تو انہیں سزا دے تو یہ تیرے غلام ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو زبردست غلبے والا اور حکمت والا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : The Prophet (ﷺ) stood up among us and addressed (saying) "You will be gathered, barefooted, naked, and uncircumcised (as Allah says): 'As We began the first creation, We shall repeat it..' (21.104) And the first human being to be dressed on the Day of Resurrection will be (the Prophet) Abraham Al-Khalil. Then will be brought some men of my followers who will be taken towards the left (i.e., to the Fire), and I will say: 'O Lord! My companions whereupon Allah will say: You do not know what they did after you left them. I will then say as the pious slave, Jesus said, And I was witness over them while I dwelt amongst them..........(up to) ...the All-Wise.' (5.117-118). The narrator added: Then it will be said that those people (relegated from Islam, that is) kept on turning on their heels (deserted Islam).