تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے علمی مجلس کے آداب پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی طالب علم یا کوئی دوسرا خواہشمند شیخ کے نزدیک بیٹھنا چاہتا ہے تو اسے بروقت آنا چاہیے۔ اسے اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے اہل مجلس کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے بہتر ہے کہ سب سے آخر میں بیٹھ جائے۔ مجلس میں بیٹھنے والوں میں سے کسی ایک کی دوسرے پربرتری ثابت کرنا مقصود نہیں۔ فیوض وبرکات کے اعتبار سے تمام اہل مجلس برابر ہیں۔ ایسی مجالس پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔
2۔ اگر بعد میں آنے والا دیکھتا ہے کہ شیخ کے پاس جگہ خالی ہے تو اسے اجازت ہے کہ وہ حاضرین کے پاس سے گزر کر خالی جگہ میں بیٹھ جائے۔ یہ تخطی رقاب (گردنیں پھلانگ کر جانا) نہیں جوشرعاً ممنوع ہے۔ یہ اس لیے جائز ہے کہ پہلے سے بیٹھنے والوں نے بدنظمی کی ہے اور آگے جگہ خالی چھوڑرکھی ہے۔ اس سے آگے بیٹھنے والے کے شوق اور رغبت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اس بنا پر وہ پیچھے بیٹھنے والے سے افضل ہوگا کیونکہ اسے حصول خیر کا شوق زیادہ ہے۔ (فتح الباري: 207/1)
3۔ حدیث میں ہے کہ دوسرے شخص نے حیا کا معاملہ کیا۔ اس کے دو معنی ہیں: (الف) شرم کی وجہ سے اس نے اہل مجلس سے مزاحمت نہیں کی بلکہ جہاں جگہ ملی وہیں بیٹھ گیا، مقصد تو علمی مجلس میں شریک ہونا تھا، اہل مجلس کے تکلیف دینے سے کیا فائدہ؟ (ب) بیٹھنے کا خیال تو نہ تھا مگر اہل مجلس سے شرم کرتے ہوئے پیچھے بیٹھ گیا۔ حدیث میں یہی معنی مقصود ہیں کیونکہ دوسری روایت میں ہے کہ یہ شخص مجلس سے آگے نکل چکا تھا مگر اسے شرم دامن گیر ہوئی تو واپس آیا اور بیٹھ گیا۔(المستدرک للحاکم: 255/4) ایسی صورت میں (لَا يَشْقَى جَلِيسُهُمْ) کے تحت معاملہ ہوگا۔
4۔ اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت حیا کا ثبوت ملتا ہے۔ بعض اہل علم نے اس کی تاویل کی ہے کہ اس سے مراد رحم کرنا اور کسی کو عذاب نہ دینا ہے لیکن محققین اسلاف نے اس انداز کو پسند نہیں کیا بلکہ ان کے نزدیک قابل تعریف موقف یہ ہے کہ اللہ کی صفات کو جوں کا توں تسلیم کیا جائے۔
5۔ تیسرے شخص کی بے رخی کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ منافق تھا، کیونکہ اخلاص کے باوجود بعض اوقات انسان اپنی ضروریات کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے اتنی بات ضرور ہے کہ وہ خاص رحمت جو اہل حلقہ پر ہورہی تھی، اس سے وہ محروم رہ گیا۔