تشریح:
(1) انسانی بخل کی حد ہے کہ وہ اپنے خالق کی بارگاہ میں بھی اس وقت تک اپنا مال خرچ کرنا پسند نہیں کرتا جب تک اس سے اپنا معاوضہ وصول نہ کرے اور وہ بھی ہمیشگی، یعنی وہ بھی نذرونیاز ادا کرنے کا عزم اس وقت کرتا ہے جب اس کا مریض پہلے شفایاب ہو جائے، جبکہ حدیث کہتی ہے کہ کارکنانِ قضا و قدر کے سامنے یہ مشروط نذرونیاز بے کار اور لاحاصل بات ہے وہ ایک طے شدہ معاملہ ہے جو ہو کر رہے گا۔ اس طرح کی مشروط نذریں تقدیر کے فیصلوں پر ذرا بھر بھی اثر انداز نہیں ہوتیں، صدقہ کرنے سے بےشک بلائیں ٹل جاتی ہیں، اس لیے اگر تم یہ چاہتے ہو تو شرط کیے بغیر صدقہ دیتے رہو۔ اگر عالم تقدیر میں یہ طے پا چکا ہے کہ تم صدقہ کرو گے تو یہ بلا تم سے ٹل جائے گی تو تمہارا مقصد بھی پورا ہو جائے گا اور تمہارے اس بخل کا مظاہرہ بھی نہیں ہو گا۔
(2) بہرحال امور مقدرہ کے لیے اسباب بھی مقدر ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ بھی حدیث میں ہے کہ بعض اسباب ایسے ہیں جن کا ارتکاب بے فائدہ ہے، عالم تقدیر پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اس لیے ایسے اسباب کو بروئے کار لانا وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ حماقت بھی ہے جیسا کہ عورت کسی مرد سے شادی کرنے کے لیے یہ شرط لگائے کہ پہلی بیوی کو طلاق دے دو، اسی طرح صدقہ و خیرات کرنے کے لیے یہ شرط لگانا کہ اگر میرا یہ کام ہو گا تو اتنا روپیہ اللہ تعالیٰ کے لیے دوں گا، اس قسم کے اسباب اسی میں داخل ہیں۔ واللہ أعلم