تشریح:
(1) صحیح مسلم میں یہ مباحثہ تفصیل سے بیان ہوا ہے جس میں حضرت آدم اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کے فضائل کا ذکر ہے، اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آدم علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے کتنا عرصہ پہلے تورات لکھی تھی؟ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: چالیس سال پہلے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا: کیا تمہیں اس میں یہ لکھا ہوا ملا تھا: آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بہک گیا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا: ’’پھر تم مجھے اسی بات پر ملامت کیوں کرتے ہو جس کا کرنا اللہ تعالیٰ نے میری قسمت میں میری پیدائش سے بھی چالیس سال پہلے لکھ دیا تھا۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6744 (2652))
(2) اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کرنے سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے، فرشتوں سے سجدہ کرانے، جنت میں ٹھہرانے اور ایک درخت کے پاس جانے سے منع کرنے، پھر اس کے کھانے اور اس کی پاداش میں جنت سے نکل جانے کا واقعہ تقدیر میں لکھا تھا۔ اس کے جواب میں حضرت آدم علیہ السلام صرف گریۂ و زاری کرتے رہے، اس کے علاوہ ایک حرف تک منہ سے نہیں نکالا۔ کلمات استغفار بھی اس وقت کہنے کی جراءت کی جب پروردگار ہی کی طرف سے ان کا القاء کیا گیا۔ یہ صرف خالق کا حق ہے کہ وہ مخلوق سے کسی معاملے کے متعلق باز پرس کرے۔
(3) ممکن تھا کہ کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ شاید حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں اس وقت جواب نہ آ سکا ہو گا، اس عقدہ کے حل کے لیے اللہ تعالیٰ نے عالم غیب میں ایک محفل مکالمہ مرتب فرمائی، حضرت آدم علیہ السلام سے گفتگو کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ایک ایسے فرزند کا انتخاب کیا جو فطرتاً تیز مزاج اور نازوں میں پلے ہوئے تھے تاکہ ان سے گفتگو کی ابتدا کر سکیں اور ان کے سامنے سوال و جواب کا یہی موضوع رکھ دیا۔ بہرحال حضرت آدم علیہ السلام نے ایسا جواب دیا جس سے موسیٰ علیہ السلام کو خاموش ہونا پڑا مگر یہاں معاملہ مخلوق کا مخلوق کے سامنے تھا لیکن جب یہی معاملہ خالق کے سامنے پیش آیا تو آدم علیہ السلام کے پاس گریۂ و زاری کرنے (رونے پیٹنے) کے علاوہ اور کوئی جواب نہ تھا۔
(4) مصیبت میں تقدیر کا ذکر کرنا رضا بالقضاء کی علامت ہے لیکن گناہ اور معصیت پر تقدیر کا بہانہ پیش کرنا انتہائی جسارت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تقدیر، یعنی اللہ تعالیٰ کا ازلی اور ابدی علم عین برحق ہے کہیں بھی اس سے ذرہ برابر کچھ مختلف نہیں ہو سکتا، مگر یہ علم بندوں کو مجبور نہیں کرتا۔ انسانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے آئندہ کے امور میں تقدیر کو بطور بہانہ یا عذر پیش کریں کیونکہ ہر شخص کو صحیح راہ اختیار کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے لیکن اگر گناہ ہو جائے تو تقدیر کا بیان بطور عذر مباح ہے۔ واللہ أعلم