تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کو نماز کے بعد پڑھنے کا اہتمام کیا کرتے تھے کیونکہ ان میں کمال توحید اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی وسعت کا ذکر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو تقدیر پر ایمان لانے کے اثرات کو بیان کرنے کے لیے روایت کیا ہے کہ اس سے مومن کا عقیدہ راسخ اور پختہ ہو جاتا ہے کہ عطا کرنے یا روک لینے کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر اللہ آپ کو کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس کے سوا کوئی اسے دور نہیں کر سکتا اور اگر وہ آپ سے کوئی بھلائی کرنا چاہے تو کوئی اسے ٹالنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے، اس سے نوازتا ہے۔‘‘ (یونس: 107/10) راسخ اور پختہ عقیدے کے نتیجے میں خودداری، جراءت مندی اور دلیری پیدا ہوتی ہے۔ جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ تمام چیزیں تقدیر الٰہی سے ہیں اسے پچھلی باتوں پر رنج اور مستقبل کا فکر دامن گیر نہیں ہوتا۔ واللہ المستعان