تشریح:
(1) مقلب القلوب کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندے کے دل کو ایمان سے کفر اختیار کرنے کی طرف اور کفر سے ایمان اختیار کرنے کی طرف پھیرنے والا ہے، یعنی ایک مومن کو کافر بنانے اور کافر کو کفر اختیار کرانے پر قادر ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ انسان کے دل کی مثال اس پَر کی طرح ہے جو ایک چٹیل میدان میں پڑا ہو اور تیز و تند ہوائیں اس کو کبھی سیدھا اور کبھی الٹا کر رہی ہوں۔ (مسند أحمد: 419/4) ایک وسیع جنگل میں تیز و تند ہوا اور ایک ذرا سے پَر کا بھلا کیا مقابلہ ہے۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ نے آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس سے مراد دل کے ارادوں کو پھیرنا ہے، چنانچہ اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام انسانوں کے دل رحمٰن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو پھیر دیتا ہے۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دعا فرمائی: ’’اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری پر جھکائے رکھنا۔‘‘ (مسند أحمد: 251/6)
(3) حق تعالیٰ کی علی الاطلاق قدرت اور بندوں کی انتہائی بے چارگی کا نقشہ اس سے زیادہ مؤثر اور مختصر انداز میں ادا نہیں کیا جا سکتا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ دعا سنی تو عرض کرنے لگے کہ جب ہم آپ پر ایمان لا چکے ہیں تو کیا آپ کو ہمارے متعلق اب بھی کوئی خطرہ باقی ہے تو آپ نے وہی الفاظ بیان فرمائے جو پہلی حدیث میں بیان ہو چکے ہیں۔ (جامع الترمذي، القدر، حدیث: 2140) اس کا مطلب یہ ہے کہ مقام صحابیت پر فائز ہو جانے کے بعد بھی کوئی شخص قضا و قدر کے قاہرانہ تصرف سے بے خوف نہیں ہو سکتا۔ شان بندگی اسی میں ہے کہ کسی بلند سے بلند مقام پر پہنچ جانے کے بعد بھی مختار کل کے اختیارات سے انسان ڈرتا رہے۔ اس سے یہ بات بھی پیش نظر رہتی چاہیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جو بڑی حد تک ان خطرات سے محفوظ تھے، جب ان کے متعلق بارگاہ نبوت سے یہ جواب ملا تو پھر ہم جیسے کمزور و ناتواں لوگوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ واللہ المستعان