تشریح:
(1) طاعون ایک پھوڑے سے شروع ہوتا ہے جو بغل یا گردن پر نکلتا ہے، اس کی وجہ سے بخار ہوتا ہے اور انسان جلدی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ طاعون جیسی تکلیف دہ بیماری دنیا میں اپنے اسباب ہی سے آتی ہے لیکن اس بیماری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے باعث رحمت بنا دیا گیا ہے جس کی چند شرائط ہیں: ٭ جب اس کے شہر میں طاعون آئے تو ڈر کر وہاں سے بھاگ نہ جائے کیونکہ ڈر کر بھاگنا اس کی پختگی اور تقدیر پر اعتماد کے خلاف ہے۔ ٭ شہر میں رہنا بھی ہو تو صابر بن کر رہے کسی کاروباری یا برادری کی مجبوری سے نہ ہو۔ ٭ وہاں رہتے ہوئے ثواب کی نیت کو شامل کر لے کیونکہ اعمال میں نیت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ ٭ یہ عقیدہ رکھے کہ جو اللہ تعالیٰ نے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے نہ تو اس کے خلاف ہو سکتا ہے اور نہ اس سے فرار ہی ممکن ہے۔ اگر ان شرائط کی ادائیگی کے بعد وہاں موت آ گئی تو اسے شہید کا ثواب ملے گا۔
(2) بہرحال رضا بالقضاء کے عقیدے سے انسان کی زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مثلاً: تقدیر پر ایمان لانے سے بندے پر مصائب آسان ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، بندۂ مومن ان مصائب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان سمجھتا ہے اور صبر کرتا ہے۔ ٭ ایمان بالقدر سے انسان ہمیشہ اپنی زندگی کے لیے نیک اعمال کی تمنا اور اچھے کردار کی جستجو کرتا ہے، اسی کو تقدیر کا فیصلہ قرار دیتا ہے، پھر وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہر وقت مصروف رہتا ہے۔ ٭ تقدیر پر ایمان کے نتیجے میں بندے سے صحیح افعال صادر ہوتے ہیں اور اچھے اوصاف پیدا ہوتے ہیں، نیز وہ راہ حق میں دین کی حمایت کے لیے خطرات مول لیتا ہے اور اس پر لوگوں کو آمادہ کرتا ہے۔ ٭ ایمان بالقدر کے ذریعے سے انسان مایوسی اور ناامیدی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا، نیز نقصان اور پریشانی کے وقت خودکشی جیسی لعنت کو گلے نہیں لگاتا۔
(3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث میں مقصود یہ ہے کہ انسان کو جو تکلیف بھی پہنچتی ہے وہ پہلے سے اللہ تعالیٰ کے ہاں فیصلہ شدہ ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اس پر صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے اجروثواب کی امید رکھے۔ (فتح الباري: 627/11)