تشریح:
(1) یہ غزوۂ تبوک کا واقعہ ہے اور درج ذیل آیات اسی واقعہ کے پس منظر میں نازل ہوئیں: ''اور نہ ان لوگوں پر ہی کچھ الزام ہے جو آپ کے پاس حاضر ہوئے تاکہ آپ انہیں سواری مہیا کر دیں، تو آپ نے کہا: میرے پاس تمہارے لیے سواری کا بندوبست نہیں، تو وہ واپس چلے گئے اور اس غم سے ان کی آنکھیں اشکبار تھیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں ہے۔'' (التوبة: 92/9)
(2) ایک دوسری روایت میں یہ واقعہ ذرا تفصیل سے بیان ہوا ہے، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھیوں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سواری مانگنے کے لیے بھیجا۔ میں نے جا کر عرض کی: اللہ کے رسول! میرے ساتھیوں نے مجھے سواری طلب کرنے کے لیے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’واللہ! میں تمہیں کوئی سواری نہیں دوں گا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غصے میں تھے مگر میں سمجھ نہ سکا۔ میں افسردہ ہو کر واپس آیا اور اپنے ساتھیوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کی اطلاع دی۔ مجھے ایک تو یہ غم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سواری مہیا نہیں کی اور دوسرا یہ کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض ہیں۔ مجھے واپس آئے ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ میں نے سنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ مجھے پکار رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا تو وہ کہنے لگے: چلو، تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا رہے ہیں۔ میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ اونٹوں کے تین جوڑے ہیں جو میں نے ابھی ابھی سعد سے خریدے ہیں۔ یہ چھ اونٹ لے لو اور اپنے ساتھیوں سے کہنا کہ یہ اونٹ اللہ تعالیٰ نے یا اللہ کے رسول نے تمہیں سواری کے لیے دیے ہیں، انہیں اپنے کام میں لاؤ۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4415)