تشریح:
(1) حدیث میں لات و عزی کی قسم کھانے کا ذکر ہے جبکہ عنوان میں طواغیت کا حوالہ ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس لفظ سے ایک دوسری روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کے الفاظ ہیں: ’’تم اپنے باپ دادا اور طواغیت کی قسم نہ اٹھاؤ۔‘‘ (سنن النسائي، الأیمان والنذور، حدیث: 3805)
(2) جمہور اہل علم کا کہنا ہے کہ جس نے لات و عزی یا اس کے علاوہ دیگر بتوں کی قسم اٹھائی یا کہا کہ اگر میں یہ کام کروں تو یہودی اور عیسائی ہوں گا یا میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بری ہوں تو اس طرح قسم منعقد نہیں ہو گی۔ اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے اس گناہ کی معافی مانگے اور اس پر توبہ کے علاوہ اور کوئی کفارہ نہیں۔ توبہ کے لیے وہ لا إله إلا اللہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے۔
(3) حدیث میں لا إله إلا اللہ پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے کیونکہ بتوں کے نام کی قسم کھا کر انسان نے کفار کی مشابہت کی ہے، اس لیے وہ لا إله إلا اللہ کلمۂ توحید پڑھ کر اس کی تلافی کرے اور جوئے کی دعوت دے کر اس نے کفار کے ساتھ ایک کھیل میں موافقت کی ہے، اس لیے حکم ہے کہ مالی صدقہ دے کر اس جرم کی معافی مانگے۔ اس میں صرف دعوت دینے والے کو صدقے کا حکم دیا گیا ہے اور اگر کوئی عملی طور پر جوا کھیلتا ہے تو اسے بالاولیٰ صدقہ کرنا چاہیے تاکہ اس گناہ کا کفارہ ہو جائے۔ (فتح الباري: 654/11)
(4) بہرحال غیراللہ کی قسم اٹھانا مطلقاً منع ہے۔ اگر کوئی بتوں، دیوتاؤں، ولیوں اور پیروں کی قسم اٹھاتا ہے تو وہ ایک حرام فعل کا ارتکاب کرتا ہے اسے چاہیے کہ کلمۂ توحید پڑھ کر اس کا ازالہ کرے۔