تشریح:
(1) اس حدیث میں حلف یا یمین کے بجائے لفظ قسم آیا ہے بلکہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ وہ صاجزادی آپ کو قسم دیتی تھیں کہ آپ ضرور تشریف لائیں۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1284)
(2) اس امر میں اختلاف ہے کہ أقسمت بالله یا صرف أقسمت کہنے سے قسم ہوتی ہے یا نہیں؟ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس طرح قسم ہو جاتی ہے اگرچہ اس کی نیت نہ ہو جبکہ اکثریت کا موقف ہے کہ جب قسم کی نیت ہو تو اس طرح قسم منعقد ہو جاتی ہے۔ اس حدیث سے اسی موقف کی تائید ہوتی ہے کہ جب صاجزادی نے قسم کے الفاظ سے آپ کو گزارش کی تو آپ اسے پورا کرنے کے لیے فوراً چل پڑے کیونکہ قسم کو پورا کرنا ایک مستحسن اور پسندیدہ عمل ہے۔ واللہ أعلم (فتح الباري: 660/11)