تشریح:
(1) ایک واقعے کے پس منظر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی تھی۔ وہ واقعہ امام حاکم رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے، سعید بن حارث کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا جبکہ ان کے ہاں عمرو بن کعب کا بیٹا مسعود بن عمرو آیا اور کہنے لگا: ابو عبدالرحمٰن! میرا بیٹا عمر بن عبیداللہ کے ہمراہ ایران کی سرزمین میں ہے اور وہاں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ میں نے نذر مانی ہے کہ اگر میرا بیٹا صحیح سالم واپس آ گیا تو میں پیدل بیت اللہ کا سفر کروں گا۔ وہ بیماری کی حالت میں ہمارے پاس آیا، کچھ دن زندہ رہا پھر فوت ہو گیا، اب آپ کا اس نذر کے متعلق کیا خیال ہے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت مذکورہ حدیث بیان کی۔ (عمدة القاري: 737/15)
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی کے حوالے سے لکھا ہے کہ بہترین نذر یہ ہے کہ انسان کسی قسم کی شرط کے بغیر کسی عبادت کو خود پر لازم کر لے جیسا کہ انسان کسی مرض سے شفایاب ہو تو کہے کہ میں شکریے کے طور پر روزے رکھوں گا۔ اس امر کی اللہ تعالیٰ کے لیے نذر مانے۔ اس کے برعکس اگر کوئی اپنے غلام کو خود پر بوجھ خیال کرتا ہے اور اس کے آزاد کرنے کے لیے نذر مان لیتا ہے تاکہ اس سے نجات مل جائے تو اس قسم کی نذر اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے نہیں ہے۔ واللہ أعلم (فتح الباري: 702/11)