تشریح:
(1) اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ دھوپ میں کھڑے رہنا، سایہ نہ لینا، گفتگو نہ کرنا طاعت نہیں اور جو طاعت نہ ہو وہ معصیت ہوتی ہے جبکہ معصیت کی نذر کو پورا کرنا درست نہیں۔
(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مباح شے یا اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سکوت اختیار کرنا طاعت نہیں، اسی طرح دھوپ میں بیٹھے رہنا طاعت نہیں۔ طاعت وہ ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہو۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرطبی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس واقعے سے عدم کفارہ ثابت ہوتا ہے کیونکہ معصیت کے متعلق اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارے کا حکم نہیں دیا۔ (فتح الباري: 719/11) لیکن ہمارے رجحان کے مطابق جس نے کوئی غیر معین یا معصیت و نافرمانی یا ایسے کام کی نذر مانی جس کی اس میں طاقت نہیں تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہے۔ دلائل حسب ذیل ہیں: ٭ کعبے کے لیے اپنے تمام مال وقف کرنے والے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا کہ وہ قسم کا کفارہ دے۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 65/1) ٭ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، النذر، حدیث: 4253 (1645)) ٭ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ معصیت و نافرمانی کے کام میں نذر جائز نہیں اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔ (سنن أبي داود، الأیمان والنذور، حدیث: 3290) ان دلائل کے پیش نظر مذکورہ نذر میں قسم توڑنے کا کفارہ ادا کر دینا چاہیے۔ واللہ أعلم