تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس حدیث سے یہ ہے کہ جس طرح حدیث میں مذکور شخص نے روزے کے منافی کام کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم نے اسے کفارہ دینے کی تلقین کی، اسی طرح قسم میں بھی اگر کوئی شخص قسم کے منافی کام کرے گا تو قسم کا کفارہ دینا پڑے گا۔ اگرچہ اس حدیث میں رمضان کے روزے کا کفارہ ذکر ہوا ہے، تاہم قسم کے کفارے کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
(2) قرآن کریم کی ظاہر آیت سے یہ حکم سمجھا جا سکتا ہے کہ کفارہ، قسم کے فوراً بعد پڑ جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ﴾ ’’یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو۔‘‘ (المائدة: 89/5) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے قرآنی آیت کے مفہوم کو متعین کیا ہے کہ کفارہ اس وقت واجب ہوتا ہے جب قسم کے منافی کام کیا جائے جیسا کہ روزے کا کفارہ اس وقت واجب ہوا جب اس نے روزے کے منافی کام کیا۔
(3) واضح رہے کہ روزے کا کفارہ بالترتیب ہے، یعنی پہلے غلام آزاد کرے اگر اس کی ہمت نہیں تو دو ماہ مسلسل روزے رکھے اور اگر اس کی بھی ہمت نہیں تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے جبکہ قسم کے کفارے میں اسے اختیار ہے: دس مساکین کو کھانا کھلا دے یا انہیں پوشاک دے دے یا ایک غلام آزاد کر دے۔ اگر ان میں سے کسی کی ہمت نہیں تو تین دن کے روزے رکھ لے۔ واللہ أعلم