تشریح:
(1) کفارۂ قسم کا ایک مصرف دس مساکین کو کھانا کھلانا ہے۔ اس میں عموم ہے کہ وہ مساکین قریبی رشتے دار ہوں یا دور کی تعلق داری رکھتے ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارۂ رمضان دینے والے سے فرمایا کہ یہ (کھجوروں کا ٹوکرا) لے جاؤ اور اپنے گھر والوں کو کھلا دو۔ گھر والوں میں دور اور نزدیک کے تمام رشتے دار آ جاتے ہیں۔
(2) اگرچہ یہ حدیث کفارۂ رمضان کے متعلق ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے قسم کے کفارے کو اس پر قیاس کرتے ہوئے مذکورہ حکم مستنبط فرمایا۔ جب قریبی رشتے دار مساکین کو کفارہ دیا جا سکتا ہے تو دور والے تعلق دار تو اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ حکم کا استنباط اس شخص کی رائے کے مطابق ہے جو اہل خانہ کو کفارہ دینے کا موقف رکھتا ہے لیکن جس کی رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بطور صدقہ دیا، کفارہ جوں کا توں اس کے ذمے تھا، اس رائے کے مطابق یہ استنباط صحیح نہیں ہو گا۔ (فتح الباري: 727/11)
(3) واضح رہے کہ کفارہ ان اقرباء کو دیا جا سکتا ہے جن کے نان و نفقہ کی ذمہ داری کفارہ دینے والے پر نہ ہو، اگر ان کی کفالت اس کے ذمے ہے تو انہیں کفارہ دینا جائز نہیں ہے جیسا کہ بیوی کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے۔ واللہ أعلم (عمدة القاري: 754/15)