قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ مِيرَاثِ الوَلَدِ مِنْ أَبِيهِ وَأُمِّهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: «إِذَا تَرَكَ رَجُلٌ أَوِ امْرَأَةٌ بِنْتًا فَلَهَا النِّصْفُ، وَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ أَوْ أَكْثَرَ فَلَهُنَّ الثُّلُثَانِ، وَإِنْ كَانَ مَعَهُنَّ ذَكَرٌ بُدِئَ بِمَنْ شَرِكَهُمْ فَيُؤْتَى فَرِيضَتَهُ، فَمَا بَقِيَ فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ»

6733. حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ قَالَ أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ مَرِضْتُ بِمَكَّةَ مَرَضًا فَأَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَى الْمَوْتِ فَأَتَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَتِي أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي قَالَ لَا قَالَ قُلْتُ فَالشَّطْرُ قَالَ لَا قُلْتُ الثُّلُثُ قَالَ الثُّلُثُ كَبِيرٌ إِنَّكَ إِنْ تَرَكْتَ وَلَدَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَتْرُكَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ آأُخَلَّفُ عَنْ هِجْرَتِي فَقَالَ لَنْ تُخَلَّفَ بَعْدِي فَتَعْمَلَ عَمَلًا تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ رِفْعَةً وَدَرَجَةً وَلَعَلَّ أَنْ تُخَلَّفَ بَعْدِي حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ لَكِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ قَالَ سُفْيَانُ وَسَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور زید بن ثابت نے کہا کہ جب کسی مرد یا عورت نے کوئی لڑکی چھوڑی ہو تو اس کا حصہ آدھا ہوتا ہے اور اگر دو لڑکیاں ہوں یا زیادہ ہوں تو انہیں دو تہائی حصہ ملے گا اور اگر ان کے ساتھ کوی( ان کا بھائی) لڑکا بھی ہو تو پہلے وراثت کے اور شرکاءکو دیا جائے گا اور جوباقی رہے گا اس میں سے لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے گا۔

6733.

حضرت سعد ابن وقاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں مکہ مکرمہ میں ایسا بیمار ہوا کہ مجھے موت نظر آنے لگی نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سا مال ہے جبکہ میری وارث صرف بیٹی ہے تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہ“ میں نے پوچھا: پھر ںصف مال صدقہ کر دوں؟فرمایا: ”نہ“ میں نے عرض کی: کیا ایک تہائی کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ گو تہائی بہت زیادہ ہے۔ اگر تم اپنے بچوں کو مال دار چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیریں۔ اور تم جو بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں ثواب ملے گا یہاں تک کہ اگر تو اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالے تو یہ بھی موجب اجرو ثواب ہوگا۔ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنی ہجرت میں پیچھے رہ جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تو میرے بعد پیچھے رہ بھی گیا تب بھی جو عمل کرے گا اور اس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہوگی تو اس کےذریعے سے تیرا درجہ اور مرتبہ ہوگا۔ میرے بعد یقیناً زندہ رہو گے یہاں تک کہ تم سے بہت لوگوں کو فائدہ پہنچے گا جبکہ بہت سے لوگ ضرر اٹھائیں گے۔ قابل افسوس تو سعد بن خولہ ہیں۔“ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں اس لیے اظہار افسوس کیا کہ ان کی وفات مکہ مکرمہ میں ہی ہوگئی۔ سفیان نے کہا: سعد بن خولہ قبیلہ بنو عامر بن لؤی کے فرد تھے۔