تشریح:
(1) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میری وارث صرف میری ایک بیٹی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ میت کے ترکے سے بیٹی وارث ہوتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہی ہے کہ بیٹیوں کی وراثت کو ثابت کیا جائے۔
(2) واضح رہے کہ بیٹیوں کی تین حالتیں ہیں:٭ جب میت کی اولاد سے صرف ایک بیٹی ہو تو اسے جائیداد سے نصف ملے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر بیٹی اکیلی ہو تو اسے ساری جائیداد کا آدھا ملے گا۔‘‘ (النساء 4: 11) ٭ جب میت کی ایک سے زیادہ بیٹیاں ہوں تو ساری جائیداد کا دوتہائی لیں گی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر بیٹیاں (دویا) دوسے زیادہ ہوں تو ان کے لیے ترکے میں سے دوتہائی حصہ ہوگا۔‘‘ (النساء 4: 11)٭جب میت کی اولاد لڑکے اور لڑکیوں پر مشتمل ہوتو بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ بطور عصبہ ملے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ تمھیں، تمھاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ مذکر کو دو مؤنث کےبرابر حصہ دیا جائے جائے۔‘‘ (النساء 4 :11)
(3)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے عصبات تو موجود تھے، البتہ اس وقت اولاد میں صرف ایک لڑکی تھی، ان کی نفی کو اولاد پر محمول کیا جائے گا۔ (فتح الباري: 20/12)