تشریح:
(1) دور جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ ترکے کی وارث صرف بالغ اولاد نرینہ ہوا کرتی تھی، ماں، باپ اور قریبی رشتے دار محروم رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت کی رو سے والدین اور قریبی رشتے داروں کے لیے وصیت فرض کر دی: ’’تم پر فرض کردیا گیا کہ اگر تم میں سے کسی کو موت آجائے اور وہ کچھ مال ودولت چھوڑے جارہا ہو تو مناسب طور پر اپنے والدین اور قریبی رشتے داروں کے حق میں وصیت کرجائے۔‘‘ (البقرۃ 2: 180) پھر اللہ تعالیٰ نے آیت میراث کے ذریعے سے اس آیت کو منسوخ کر دیا اور والدین، نیز قریبی رشتے داروں کے لیے حصے مقرر کر دیے۔ آیت میراث یہ ہے: ’’اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے۔‘‘ (النساء 4: 11)
(2) اس آیت میں شوہر کے حصے بھی متعین کر دیے۔ اس کی دوحالتیں ہیں: ٭ جب فوت شدہ بیوی کی اولاد اور نرینہ اولاد کی اولاد نہ ہو تو اسے 1/2 ملتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر تمھاری بیویوں کی اولاد نہ ہو تو ان کے ترکے سے تمھارے لیے 1/2 ہے۔‘‘ (النساء 4: 12) ٭جب وہ فوت شدہ بیوی کی اولاد یا نرینہ اولاد کی اولاد موجود ہوتو اسے 1/4 ملتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر بیویوں کی اولاد ہو تو تمھارے لیے ترکے سے چوتھا حصہ ہے۔‘‘ (النساء 4: 12) واضح رہے کہ بیوی کی اولاد، خواہ موجودہ خاوند سے ہو یا سابقہ سے اسے صورت میں خاوند صرف 1/4 کا حق دار ہوگا۔