قسم الحديث (القائل): موقوف ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الفَرَائِضِ (بَابُ مِيرَاثِ الجَدِّ مَعَ الأَبِ وَالإِخْوَةِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَابْنُ الزُّبَيْرِ: «الجَدُّ أَبٌ» وَقَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {يَا بَنِي آدَمَ} [الأعراف: 26] {وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ} «وَلَمْ يُذْكَرْ أَنَّ أَحَدًا خَالَفَ أَبَا بَكْرٍ فِي زَمَانِهِ، وَأَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ» وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ [ص:152]: «يَرِثُنِي ابْنُ ابْنِي دُونَ إِخْوَتِي، وَلاَ أَرِثُ أَنَا ابْنَ ابْنِي؟» وَيُذْكَرُ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَزَيْدٍ، أَقَاوِيلُ مُخْتَلِفَةٌ.

6739. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ وَرْقَاءَ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ الْمَالُ لِلْوَلَدِ وَكَانَتْ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ فَنَسَخَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ مَا أَحَبَّ فَجَعَلَ لِلذَّكَرِ مِثْلَ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ وَجَعَلَ لِلْأَبَوَيْنِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ وَجَعَلَ لِلْمَرْأَةِ الثُّمُنَ وَالرُّبُعَ وَلِلزَّوْجِ الشَّطْرَ وَالرُّبُعَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

ابوبکر ابن عباس اور ابن زبیر ؓنے فرمایا کہ دادا باپ کی طرح ہے؟ اور حضرت ابن عباسؓ نے یہ آیت پڑھی” اے آدم کے بیٹو! “ اور میں نے اتباع کی ہے اپنے آباءابراہیم، اسحاق اور یعقوب کی ملت کی“ اور اس کا ذکر نہیں ملتا کہ کسی نے حضرت ابوبکر ؓسے آپ کے زمانہ میں اختلاف کیا ہو حالانکہ رسول اللہﷺ کے صحابہ کی تعداد اس زمانہ میں بہت تھی اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ میرے وارث میرے پوتے ہوں گے۔ بھائی نہیں ہوں گے اور میں اپنے پوتوں کا وارث نہیں ہوں گا۔ عمر، علی، ابن مسعود اور زید ؓ سے مختلف اقوال منقول ہیں۔تشریح :اس پر اتفاق ہے کہ باپ کے ہوتے دادا کو کچھ نہیں ملتا۔ اکثر علماءکے نزدیک دادا سب باتوں میں باپ کی طرح ہے۔ جب میت کا باپ موجود نہ ہو اور دادا موجود ہو۔ مگر چند باتوں میں فرق ہے۔ ایک یہ کہ باپ سے حقیقی اور علاقائی بھائی محروم ہوتے ہیں اور دادا سے محروم نہںے ہوتے۔ دوسرے یہ کہ خاوند یا جورو اور باپ کے ساتھ ماں کو مابقی کا ثلث ملتا ہے۔ تیسرے یہ کہ دادی کو باپ کے ہوتے ہوئے کچھ نہیں ملتا مگر دادا کے ہوتے ہوئے وہ وارث ہوتی ہے۔ قسطلانی وغیرہ۔حضرت عمر ؓکہتے ہیں دادا کو ایک ایک دو بھائیوں کے ساتھ مقاسمہ ہوگا اگر اس سے زیادہ ہوں تو دادا کو ثلث مال دیا جائیگا اور اولاد کے ساتھ دادا کو چھٹا حصہ ملے گا۔ یہ دارمی نے نکالا اور ایک روایت میں ہے کہ دادا کے باب میں حضرت عمرؓ نے مختلف فیصلے کئے ہیں اور ابن ابی شیبہ اور محمد بن نصر نے حضرت علیؓ سے نکالا کہ دادا کو چھ بھائیوں کے ساتھ ایک بھائی کے مثل حصہ دلایا اور عبداللہ بن مسعود سے دارمی نے نکالا کہ انہوں نے میت کے مال میں سے خاوند کو آدھا حصہ اور ماں کو مابقی کا ثلث یعنی کل مال کا سدس اور بھائی کو ایک حصہ اور دادا کو ایک حصہ دلایا اور زید بن ثابت سے عبدالرزاق نے نکالا کہ وہ ثلث مال میں دادا کو بھائیوں کے ساتھ شریک کرتے جب ثلث مال تک پہنچ جاتا تو دادا کو ایک ثلث دلاتے اور مابقی بھائیوں کو اور علاتی بھائی کے ساتھ دادا کا مقاسمہ کرتے لیکن پھر وہ مال حقیقی بھائی کو دلادیتے اور ماں کے ساتھ اخیافی بھائی کو کچھ نہ دلاتے۔ قسطلانی نے کہا دوسرے فقہاءنے زید کے خلاف کیا ہے۔ انہوں نے کہا حقیقی بھائی کے ہوتے علاتی کو کچھ نہ ملے گا تو مقاسمہ کی کیا ضرورت ہے ( وحیدی )

6739.

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: پہلے سارا مال اولاد کے لیے ہوتا تھا اور والدین کے لیے وصیت تھی پھر اللہ تعالٰی نے اس میں سے جو چاہا منسوخ کر دیا اور لڑکوں کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا، نیز والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ دیا۔ اس کے علاوہ بیوی کے لیے آٹھواں اور چوتھا حصہ مقرر فرمایا اور شوہر کو نصف یا چوتھائی حصے کا حق دار قرار دیا۔