تشریح:
(1)قبیلۂ بنو لحیان کی دوعورتیں لڑ پڑیں۔ ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر مارا تو دوسری کے پیٹ میں جو بچہ تھا وہ مرگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مارنے والی پر تاوان ڈالا کہ وہ ایک غلام یا لونڈی ادا کرے۔
(2)اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ بیوی کسی حالت میں بھی وراثت سے محروم نہیں رہتی۔ اس کی درج ذیل دوحالتیں ہیں: ٭جب فوت شدہ خاوند کی اولاد یا نرینہ اولاد کی اولاد نہ ہوتو بیوی کو ترکے میں سے 1/4 ملتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ’’اگر تمھاری اولاد نہ ہوتو ان بیویوں کے لیے تمھارے ترکے کا 1/4 ہے۔‘‘ (النساء 4: 12) ٭ اگر مرنے والے خاوند کی اولاد یا نرینہ اولاد کی اولاد نہ ہو تو بیوی کو ترکے میں سے 1/8 ملتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر تمھاری اولاد نہ ہو تو تمھاری بیویاں تمھارے ترکے سے 1/8 کی حق دار ہوں گی۔‘‘ (النساء 4: 12) واضح رہے کہ بیوی ایک ہو یا متعدد ان کا مقررہ حصہ وہی ہے جو آیات بالا میں بیان ہوا ہے متعدد ہونے کی صورت میں اس مقررہ حصے کو تقسیم کریں گے، نیز رجعی طلاق کی عدت میں بھی عورت وارث ہوگی۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ جب خاوند اولاد کے ساتھ اپنی بیوی کا وارث ہوا تو بیوی بھی اولاد کے ہمراہ اپنے خاوند کے ترکے سے حصہ پائے گی، جبکہ تاوان وغیرہ کنبے والوں کو ادا کرنا پڑتا ہے کیونکہ تنگی اور آسانی میں قبیلے والے ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ واللہ أعلم