تشریح:
(1) علمائے امت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بہنیں، بیٹیوں کے ہمراہ عصبہ ہوتی ہیں، یعنی بیٹیوں کا حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے وہ بہنوں کو ملے گا۔ اس کی متعدد صورتیں ہوسکتی ہیں، مثلاً:٭ اگر میت کی ایک بیٹی اور ایک بہن ہو تو نصف دینے کے بعد باقی نصف کی حق دار بہن ہے۔ ٭اگر میت کی ایک بیٹی، ایک پوتی اور ایک بہن ہے تو بیٹی کو نصف، پوتی کو 1/6، جب دو تہائی پوری ہوگئیں تو باقی ایک تہائی کی وارث بہنیں ہوں گی۔ ٭اگر دو بیٹیاں اور ایک بہن ہو تو بیٹیوں کو دو تہائی دیں گے اور باقی ایک تہائی بہن کو دیا جائے گا۔
(2) اس اجماعی موقف سے صرف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اختلاف کیا ہے۔ ان کے نزدیک بیٹی کی موجودگی میں بہن وارث نہیں ہوگی بلکہ اگر کوئی دوسرا عصبہ موجود ہے تو بیٹی سے بچا ہوا ترکہ اسے ملے گا بصورت دیگر وہ بیٹی کو بطور رد دے دیا جائے گا۔ بہرحال دلائل کا تقاضا ہے کہ بہنوں کو بیٹیوں کے ہمراہ عصبہ قرار دیا جائے جیسا کہ آئندہ حدیث سے معلوم ہوگا